Express News:
2025-03-06@23:28:25 GMT

خواتین کا اصل مسئلہ مالی خود مختاری

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

پاکستان میں بھی عورتوں کے حقوق کا عالمی دن 8مارچ کو کافی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کافی تقریبات ہوتی ہیں۔ حکومتیں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ سیمینارز اور تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ سول سوسائٹی کی خواتین عورت مارچ کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔

سب تقریبات میں عورت مارچ زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس میں کوئی تعمیری بات ہوتی ہے بلکہ چند متنازعہ بینر عورتوں کی حقوق کی تمام تر توجہ کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ساری بحث ان بینرز کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ اور پاکستان میں عورتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، کونسے حقوق ہیں جو انھیں حاصل نہیں ہیں، یہ سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ بلا شبہ عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کو عورت مارچ کے چند بینرز نے کافی سالوں سے ہائی جیک کر لیاہوا ہے۔

میں ان بینرز کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن میں ان بینرز میں لکھی گئی باتوں کو عورتوں کے اصل مسائل نہیں سمجھتا۔ فرض کرلیں میں میرا جسم میری مرضی کو پاکستان میں عورتوں کے مسائل کی بنیادی وجہ نہیں سمجھتا۔ یہ مسئلہ ہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ نہیں۔ ساری گفتگو اس کے گرد نہیں ہونی چاہیے۔

میری رائے میں پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑ امسئلہ عورتوں کی مالی خود مختاری ہے۔ ہم آج بھی اپنے گھر کی خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق آج بھی بالغ خواتین کی نصف سے زیادہ آبادی کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہے۔ یہ اعدادو شمار خواتین کی مالی خود مختاری کی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اسی طرح وراثت میں حق لینا آج بھی مسئلہ ہے۔ خواتین آج بھی جب وراثت میں حق مانگتی ہیں تو انھیں لالچی اور خاندان سے نکالنے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اسی لیے بہت کم شرح ایسی خو اتین کی ہے جو کسی بھی قسم کی پراپرٹی کی ملکیت رکھتی ہیں۔ اس لیے سرکار کو خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے اقدامات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جو خواتین کی طاقت میں اضافہ کریں۔ ابھی بینک خواتین کو قرضہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ بینکوں کا سلوک بھی کوئی مساوی نہیں ہے۔ لیکن کبھی ایسے مسائل پر گفتگو نہیں ہوتی۔

خواتین کی مالی خودمختاری میں مجھے سندھ حکومت کا سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بہت پسند ہے۔ سندھ پیپلزہاؤسنگ برائے سیلاب متاثرین ایسا منصوبہ ہے جہاں خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے کافی کام کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہروں میں پھر بھی خواتین کو حقوق حاصل ہیں۔ خواتین کی مالی خود مختاری کا اصل مسئلہ دیہی ہے۔ دیہات میں خواتین کا مالی استحصال زیادہ ہے۔

وہاں خواتین کو مالی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ سندھ پیپلزہاؤسنگ برائے سیلاب زدگان ان سیلاب متاثرین کا منصوبہ ہے جن کے گھر 2022 کے سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ سندھ میں ایسے متاثرین کی تعداد 15ملین ہے۔ جب کہ دو ملین گھر 2022کے سیلاب میں بہہ گئے تھے اور لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ سندھ حکومت نے عالمی فنڈنگ کی مدد سے ان دو ملین گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جو اپنی جگہ دنیا بھر میں گھر بنانے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

اس منصوبہ کے تحت اب تک ساڑھے تین لاکھ گھر بن چکے ہیں۔ شاید ہمیں احساس نہیں لیکن سندھ کے دیہات میں ساڑھے تین لاکھ گھر تعمیر ہو چکے ہیں۔ جب کہ نو لاکھ گھر زیر تعمیر ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر کے لیے قرض نہیں گرانٹ دی جا رہی ہے جو کسی نے بھی واپس نہیں کرنی ہے۔ کوئی ٹھیکیدار نہیں۔ لوگ اپنے گھر خود بنا رہے ہیں۔ ایک ہی نقشہ کے سب گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔ اس منصوبہ کی شفافیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اب عالمی سطح پر اس کو گھر بنانے کا سب سے بڑا منصوبہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔

لیکن اس منصوبہ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی شمولیت سب سے زیادہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت آٹھ لاکھ خواتین کو نہ صرف زمین کے ملکیتی حقوق ملے ہیں بلکہ ان کو اس منصوبے کے تحت گھر بنانے کے لیے پیسے بھی دیے گئے ہیں۔ وہ اپنے گھروں کی مالک بن گئی ہیں۔ میں ان میں سے کئی خواتین کو اندرون سندھ ملا ہوں۔ اس منصوبہ کے سربراہ خالد شیخ کے ساتھ میں نے اندرون سندھ کئی اضلاع کا دورہ کیا ہے۔

میں نے گھر بنے دیکھے ہیں۔ میں ان خواتین سے ملا ہوں۔ یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ اول تو کبھی ان کا پکا گھر ہوگا۔ یہ ساری عمر کچے گھروں میں رہی ہیں۔ پکا گھر ان کا خواب تھا۔ دوسرا ان خواتین نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر کی خود مالک ہونگی۔ ان خواتین نے کبھی بینک اکاؤنٹ کھولنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اب ان کے بینک اکاؤنٹ بھی ہیں۔ کیونکہ رقم خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہے۔

اس منصوبہ کے تحت گاؤں گاؤں ویلج کونسل بنائی گئی ہیں۔ جس میں بھی خواتین کی نمائندگی لازمی ہے۔ خواتین کی نمائندگی کے بغیر ویلج کونسل بن نہیں سکتی۔ یہ کونسل گھر بنانے کے عمل کی نگرانی کرتی ہے اور اس کی سفارشات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مجھے اس منصوبہ سے لگا کہ خواتین کو نہ صرف مالی خود مختاری دی گئی ہے بلکہ ان کو فیصلہ سازی میں بھی کردار دیا گیا ہے۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ سندھ میں سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کے لیے کردار ادا کر رہی ہیں۔ میں نے کئی دیہات کی کونسل سے ملاقات کی ہے۔ ان سب کی خواتین ممبران بہت فعال ہیں۔ اور اپنے اپنے دیہات کی تعمیر میں کردار ادا کر رہی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں سندھ پیپلز ہاؤسنگ برائے سیلاب زدگان کا ماڈل خواتین کو مالی خود مختاری اور معاشرہ میں فعال کردار دینے کے لیے ایک بہترین ماڈل ہے۔ حکومتوں کو اس کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے منصوبے بنانے چاہیے۔ ہم جس قدر خواتین کو مالی خود مختاری دیں گے باقی حقوق وہ اپنی مالی خود مختاری سے خود ہی حاصل کرلیں گی۔

باقی مسائل کے حل ہونے کا راستہ بھی اسی سے نکلے گا۔ گھروں میں قید کر کے، مالی وسائل سے دور رکھ کر ہم خواتین کو کوئی حقوق نہیں دے سکتے۔ وہ پھر محکوم ہی رہیں گی کیونکہ سب سے بڑی محکومیت مالی ہے۔ اس کو ختم کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب خاتون مالی طور پر خود مختار ہو گی تو وہ اپنی ز ندگی کی خود مالک بن جائیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عورتوں کے حقوق اس منصوبہ کے سیلاب زدگان پاکستان میں کی مالی خود دینے کے لیے گھر بنانے خواتین کی کی تعمیر گھروں کی اپنے گھر میں بھی ا ج بھی نے گھر گھر بن کے تحت

پڑھیں:

مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے

اسلام ٹائمز: ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

مسئلہ فلسطین گذشتہ سات دہائیوں سے عالمی مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں کہ جب سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز ہوا اور پندرہ ماہ کی جنگ میں غزہ میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد ہونے والی جنگ بندی معاہدے نے فلسطین کاز کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد پوری دنیا میں جہاں فلسطین کاز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی، اس کی مثال آج سے پہلے نہیں ملتی ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور پر مغربی ممالک میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوئی، جس نے مغربی حکومتوں کو یہ پیغام دیا کہ دنیا بھر کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف متحد کھڑے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کا جانا اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کا اس مقدمہ کا حصہ بن جانا یقیناً انقلابی اقدامات ہیں۔

فلسطین کاز کے ساتھ وابستگی کے لئے تمام طبقات کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس عنوان سے دنیا بھر میں اسرائیلی اور ایسی تمام کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم بھی قابل ذکر ہے کہ جو کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ امریکہ اور اسرائیل کی مددگار ہیں۔ دنیا بھر کے عوام نے ایسی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا عملی ثبوت دیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام نے بائیکاٹ مہم میں حصہ لیا اور یہ پیغام دیا کہ ہم جس طرح بھی ممکن ہوگا، مظلوم فلسطینیوں کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ دنیا بھر میں جاری اس بائیکاٹ کی مہم میں کئی ایک ایسی کمپنیوں کو دیوالیہ کا سامنا کرنا پڑا، جو امریکہ یا اسرائیل کی مدد گار تھیں۔

حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے۔ غاصب صیہونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن فلسطینی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی کی حکمت عملی کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے میدان میں جنگ جیتنے کے بعد میڈیا کے میدان کی جنگ کو بھی احسن انداز سے اپنے حق میں جیت لیا ہے۔ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کا دن ہو یا پھر 26 جنوری 2025ء کا دن ہو، اس درمیان روز اول سے فلسطینی مزاحمت نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کامیابیوں کے حصول کے لئے شہداء نے قربانیاں پیش کی ہیں۔

شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار، شہید حسن نصراللہ، شہید ہاشم صفی الدین اور دیگر ہزاروں شہدائے فلسطین و لبنان کہ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کا تحفظ اور فلسطین کی آزادی یقینی ہو۔ یہ قربانیاں یقینی طور پر رائیگاں نہیں جائیں گی۔ غزہ جنگ میں ناکامی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس جنگ کو مذاکرات کی میز پر اپنے حق میں تبدیل کرے، لیکن فلسطینی عوام نے اپنی استقامت اور صبر کے ساتھ ٹرمپ کی تمام تر سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور فیصلہ سنا دیا ہے کہ غزہ کے لوگ غزہ سے نکل کر کہیں نہیں جائیں گے۔ پوری دنیا کو یہ بات باور کروا دی گئی ہے کہ یاد رکھیں فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔

ماہ رمضان المبارک میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے چند ایک اہم اقدامات:
آئیں ہم اس ماہ رمضان المبارک میں عہد کریں کہ ہم مندرجہ ذیل نقاط کو ہر سطح پر اجاگر کریں اور مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ یہ مندرجہ ذیل نقاط ہیں کہ جن کو ہم اپنی محافل اور پروگراموں میں عوام تک پہنچا سکتے ہیں اور فلسطین کاز کی آواز کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
۱۔ مسئلہ فلسطین کو اس کی اساس یعنی دنیا کو باور کروائیں کہ صیہونی غاصب اور ظالم ہیں اور فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے، یعنی دریائے اردن سے سمندر تک۔
۲۔ غزہ جنگ کا آغاز غاصب صیہونی حکومت کی 77 سالہ انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف فلسطینیوں کا بنیادی حق تھا، جو سات اکتوبر کو شروع ہوا۔
۳۔ غزہ جنگ کے آغاز سے تاحال فلسطینیوں نے مختلف میدانوں میں کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے، یعنی خود سات اکتوبر کو اسرائیل کی ناکامی فلسطینیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
۴۔ غزہ جنگ کے دوران یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ہے، یعنی آئرن ڈوم اور جدید دفاعی نظام اس جنگ میں ناکام رہا ہے۔

۵۔ سات اکتوبر کے بعد سے فلسطین کاز کی ایک کامیابی یہ رہی ہے کہ دنیا بھر کے عوام فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے ہوئے اور فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں کو اپنی عوامی حمایت کے ذریعہ ناکام بنایا۔
۶۔ فلسطینی مزاحمت کا باہمی اتحاد، جس نے غاصب صیہونی حکومت کو مزید کمزور کیا۔ یعنی فلسطین کے دفاع میں حماس اور جہاد اسلامی کے علاوہ لبنان سے حزب اللہ، عراق سے حشد الشعبی اور یمن سے انصار اللہ کی مسلح کارروائیوں نے فلسطینی مزاحمت کے اتحاد اور قوت میں مزید اضافہ کیا۔
۷۔ فلسطینی مزاحمت کی مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی جدوجہد اور مزاحمت نے دنیا بھر میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ میں اضافہ ہوا، جس کے باعث کئی بڑی کمپنیاں جو صیہونیوں کی مدگار تھیں، انہیں شدید بحران اور نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کی صورتحال:
جس طرح غزہ جنگ کے دوران متعدد کامیابیوں کا حصول یقینی ہوا، اسی طرح غزہ کی جنگ بندی کے بعد بھی مزاحمتی فورسز سمیت فلسطین کاز کو بے پناہ اہمیت حاصل ہوئی ہے۔
۱۔ جنگ بندی معاہدے میں دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کو فلسطین کے چھوٹے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے اور ان کی شرائط کے مطابق غزہ جنگ بندی کو تسلیم کرنا پڑا۔
۲۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے نتائج میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل یقینی ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔
۳۔ غزہ جنگ بندی کے بعد ایک مرتبہ پھر فلسطین کاز کو عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہوئی۔

۴۔ غزہ جنگ بندی کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر مزید دبائو پیدا ہوا ہے، جس کو وہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یعنی جنگ کے آغاز سے تاحال عالمی سطح پر اسرائیل کو شدید تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے۔
۵۔ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے میڈیا کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یعنی قیدیوں کے تبادلہ کی تقاریب میں شاندار مناظر دیکھنے کو ملے، جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت مستحکم اور پائیدار ہے۔
۶۔ غزہ میں تباہی کے باعث جنگ بندی معاہدے سے یہ موقع میسر ہو رہا ہے کہ از سر نو غزہ کی تعمیر کی جائے۔

مستقبل کے خطرات:
۱۔ امریکہ اور اسرائیل اپنی شکست کو چھپانے کے لئے دوبارہ سے جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ لبنان میں مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے مسئلہ کو فراموش نہ ہونے دیں اور پہلے ہی کی طرح بھرپور قوت کے ساتھ فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھیں۔ عوامی سطح پر جو کام ہم کرسکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ فلسطین کاز کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ اجتماعات کا انعقاد اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا۔
۲۔ امریکہ سمیت اسرائیل اور ہر اس کمپنی کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنا، جو براہ راست یا بالواسطہ غزہ میں جاری نسل کشی کی ذمہ دار ہیں۔
۳۔ غزہ کے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے ہر ممکن مالی امداد کو یقینی بنانا۔
۴۔ مزید ایسے تمام اقدامات، جن کے ذریعے فلسطین کاز کو اجاگر کرنے کا موقع ملے، بغیر کسی سستی اور کوتاہی کے جاری رکھنا۔

امید ہے کہ ہم ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے اپنے طور پر بھرپور کوشش کریں گے۔ اس عنوان سے علمائے کرام اور مشائخ سے گزارش ہے کہ اپنے تمام تر اجتماعات میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ان اقدامات کو خصوصی اہمیت دیں اور عوام تک اس پیغام کو پہنچا کر اپنا دینی اور انسانی فریضہ انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے سیاسی قیادت کی ملاقات نہ ہونے دینا منصوبہ بندی کا حصہ ہے
  • اگر پاکستان "آزاد کشمیر" خالی کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائیگا، ایس جے شنکر
  • رمضان المبارک نور ہی نور
  • نیل نتن مکیش کا کترینہ کیف کے ساتھ کیا تنازع تھا؟ اداکار کا انکشاف
  • کراچی کے حقوق و مسائل، منعم ظفر خان کا عید کے بعد ملین مارچ کا اعلان
  • ہمارے بچوں، خواتین اور شہریوں کی شہادت ناقابل برداشت، پختون یار خان
  • جاپان کا دورہ اور خواتین کے تھانے
  • مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے
  • مصر کا غزہ منصوبہ، حماس کی جگہ عبوری حکومت کی تجویز