Express News:
2025-03-06@23:31:29 GMT

ٹرمپ کی پالیسیاں اور عالمی تجارتی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی شراکت داروں پر ٹیرف لگانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مستقبل میں بھی مزید محصولات عائد کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، یوں امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد اضافی ٹیکس کا نفاذ ہوگیا ہے، جس کے ساتھ ہی چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھی اضافی رقوم کا اطلاق شروع ہو گیا ہے، جس کے جواب میں تینوں ممالک نے فوری اور سخت ردعمل دیا ۔

 امریکی صدر ٹرمپ اگر ایسی ہی پالیسیوں پر گامزن رہے تو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت کی روانی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت ذرا مختلف ہے۔ وہ اس بار پہلے سے زیادہ منظم ہیں اور انھوں نے اپنی ٹیم کو ایسے عہدوں پر تعینات کر دیا ہے جہاں وہ ان کے ایجنڈے پر مؤثر طریقے سے عمل کر سکیں جس میں ان کی تباہ کن خواہشات بھی شامل ہیں۔

اسی لیے ایک ماہ کی معطلی کے بعد کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فی صد محصولات عائد کیے جا چکے ہیں جب کہ چین پر بھی اضافی ٹیکس لگا کر مجموعی طور پر محصول کو 20 فی صد کر دیا گیا، یہ محصولات درآمد کنندگان، بندرگاہوں اور سرحدی گزرگاہوں پر ادا کرتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ یہ ٹیکس مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کریں گے لیکن عملی طور پر معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ یہ محصولات 918 ارب ڈالر کی امریکی درآمدات پر لاگو ہوں گے، جس سے ایواکاڈو سے لے کر امریکی گھروں کی تعمیر کے لیے ضروری لکڑی تک، سب کچھ متاثر ہوگا۔ اضافی محصولات کے نفاذ کے باعث امریکی، یورپی اور ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔

تجارتی جنگ کے بڑھنے سے عالمی منڈیوں میں مندی دیکھی گئی۔ وال اسٹریٹ کے بڑے انڈیکس ایس اینڈ پی 500 میں تیزی سے کمی آئی، جس سے ٹرمپ کے انتخاب کے بعد ہونے والے تمام فوائد مٹ گئے۔ امریکا کے لیے کینیڈا ایک اچھا فراہم کنندہ ہے کیونکہ وہ بالکل پڑوس میں ہے اور اس کا ایک قابل اعتماد اتحادی بھی ہے بلکہ تھا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکا میں تیل اور بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی۔ جب کاروبار کو بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہوتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ خود اس بوجھ کو برداشت کریں یا اسے صارفین تک منتقل کر دیں یعنی عام امریکی شہری تک۔ نئی صورت حال میں زیادہ تر کاروباری طبقے دوسرا راستہ اپنانا پسند کریں گے۔

محصولات (ٹیرف) کے بارے میں کوئی بحث نہیں۔ یہ مہنگائی میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو مرکزی بینک کا اگلا قدم کیا ہوتا ہے؟ وہ شرحِ سود میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے گھریلو اورکاروباری قرض لینے والے متاثر ہوتے ہیں اور معاشی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکا کی بطور اچھے تجارتی شراکت دار ساکھ بھی متاثر ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ تجارتی راستے کسی اور سمت مڑ جائیں۔ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ گزشتہ بار بھی ایسا ہوا تھا۔ٹرمپ کی اس پالیسی کا دوسرا مقصد ملکی آمدنی میں اضافہ ہے۔

امریکا کا قرض اب جی ڈی پی کے 124 فی صد تک پہنچ چکا ہے جب کہ برطانیہ کا قرض اس کے جی ڈی پی کے 95 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔ دراصل آمدنی بڑھانے کا اس سے زیادہ تباہ کن طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ محصولات لگا کر معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت دنیا کو حیران کردیا، جب اس نے غزہ پر قبضہ کر کے اسے امریکا کی ملکیت بنانے اور غزہ کے بائیس لاکھ باسیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے اردن اور مصر میں بسانے کا اعلان کیا۔

مصر، اردن اور عرب ممالک کے علاوہ یورپین ممالک نے بھی اس منصوبے کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے جو علاقے میں مزید تباہی، انتہا پسندی اور عدم استحکام کو جنم دے گا۔ ٹرمپ کے مطابق وہ اردن اور مصر کو ہر سال اربوں ڈالرز دیتے ہیں اور اگر انھوں نے فلسطینیوں کواپنے ہاں آباد نہ کیا تو وہ یہ امداد بند کر دیں گے۔ گزشتہ سال ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے غزہ کو شہریوں سے خالی کر کے ’’واٹر فرنٹ پراپرٹی‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین ٹرمپ کی دھونس اور دھمکیوں کی پالیسیوں کو ہٹلر کی حکمت عملی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔

دنیا کی سپر طاقت امریکا کے صدر ٹرمپ کی دھمکیوں نے عالمی سطح پر کشیدگی پیدا کر دی ہے اور ممالک اپنی خود مختاری کو برقرار رکھنے کی فکر میں متبادل طریقوں پر غورکر رہے ہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ڈالرز کے بجائے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کا عمل کچھ سالوں سے بڑھا ہے، سب سے پہلے چین نے دیگر ممالک کے ساتھ اپنی کرنسی یو این میں تجارت شروع کی، چین نے اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کرنے کی پالیسی اس وقت اختیار کی جب امریکا کی مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ہو رہا تھا، لہذا یورپ نے بھی اسی سمت میں قدم بڑھایا اور یورپی یونین نے یورو کو عالمی تجارت میں ایک مضبوط کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، تاہم یہ رجحان تیزی سے مقبول ہوا اور کئی ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارتی معاہدے کیے تاکہ ڈالرز پر انحصار کم کیا جاسکے۔

دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل برکس گروپ جن میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ ہیں، یہ گروپ اقتصادی، سیاسی، اور تجارتی تعاون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، اور عالمی سطح پر ڈالر کے بجائے متبادل مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف عمل ہے، امریکی صدر ٹرمپ کو صدارت سنبھالنے کے بعد جب بھی موقع ملا، وہ برکس ممالک کو بھاری ٹیرف عائد کرنے سے ڈراتے دھمکاتے رہے ہیں، وہ برکس ممالک سمیت کسی بھی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہیں انھیں ڈر ہے کہ اگر برکس ممالک نے اپنی کرنسی بنا لی تو امریکا برباد ہو جائے گا، نیز ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں یہ بھی کہا کہ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ برکس ممالک خود کو ڈالر سے دور کر رہے ہیں اور ہم دیکھتے ہی رہیں گے۔

 ان نام نہاد حریف ممالک کو واضح طور پر وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ طاقتور امریکی ڈالر کو بدلنے کے لیے نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے، اگر ایسا نہ ہوا تو انھیں 100 فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا، یہی نہیں بلکہ انھیں امریکا کی عظیم مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنا بھی بھولنا پڑے گا، یہ ممالک کوئی اور ملک تلاش کرسکتے ہیں اور انھیں امریکا کو بھی الوداع کہنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کی 150 فیصد ٹیرف کی دھمکی نے برکس گروپ کو توڑ دیا ہے، عالمی تناظر میں اس دھمکی کے دور رس نتائج نکلیں گے، کیونکہ امریکا پر کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

جغرافیائی سیاست میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے پس پردہ عوامل میں تیسری عالمی جنگ کی دھمک سنائی دیتی ہے، جیسا کہ روس اور یوکرین کی جنگ، چین اور تائیوان کے درمیان کشیدگی، اسرائیل فلسطین تنازع، امریکا اور ایران کے درمیان تناؤ، یہ سب ایسے عوامل ہیں جو دنیا میں جنگوں کو بڑھا سکتے ہیں، اس وقت جنگیں روایتی ہونے کے بجائے معاشی سائبر اور پراکسی جنگوں کی شکل میں جاری ہیں عالمی حالات میں کشیدگی کے سبب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اگر باہمی تباہی کی گارنٹی (MAD)Mutually Assured destruction کے اصول پر کاربند رہیں گی تو جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے براہ راست تصادم سے گریز کریں گی۔امریکی صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات عالمی سطح پر تشویشناک صورتحال اختیار کر تے جا رہے ہیں، میامی میں ایف آئی آئی کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’تیسری عالمی جنگ سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ جنگ اب دنیا سے دور نہیں ہے‘‘ ٹرمپ کا یہ بیان واضح اعلان جنگ ہے ۔

ٹرمپ کے حالیہ بیان کے پس پردہ عوامل اور ریاکاریاں بھی پوشیدہ ہیں، جس سے تیسری عالمی جنگ کے خدشے کو تقویت ملتی ہے، امریکا اس وقت یوکرین جنگ کا خاتمہ اس وجہ سے چاہتا ہے کیونکہ اس پر مالی اور عسکری دباؤ بڑھ رہا ہے، دوسری طرف غزہ پر امریکا کی توجہ معنی خیز ہے۔ایسی صورتحال کے پیش نظر اگر روس مشرق وسطیٰ میں کھل کر مداخلت کرتا ہے چاہے وہ ایران، شام یا کسی اور مقام سے ہو، تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا، امریکا براہ راست جنگ سے گریز کرے گا اور اپنے اتحادیوں کو روسی اثر و رسوخ کے خلاف مضبوط کرے گا اور خاص طور پر اسرائیل کو مزید عسکری امداد فراہم کرے گا، جیسا اس نے یوکرین میں کیا،لہٰذا ممکنہ روسی مداخلت کے بڑھنے کی صورت میں امریکا اسے اپنے عالمی اثر و رسوخ میں کمی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے براہ راست عسکری کارروائی کا فیصلہ کر سکتا ہے، اور اگر یہ ایسا ہوا تو ایک بڑی جنگ میں بدل سکتا ہے جو ممکنہ طور پر عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی دنیا کے ممالک کو نفرت انگیز دھمکیاں برکس ممالک خاص کر روس اور چین کو ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں جس سے امریکا کی معاشی بالا دستی کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا، یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب روس اور چین برکس گروپ میں توسیع کر کے ڈالر کے متبادل کو عملی جامہ پہنا دیں، جو کہ امریکا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے،جس کی وجہ سے امریکا خود کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھے گا پھر یہ معاملات عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ٹرمپ برکس ممالک امریکا کی سے امریکا عالمی جنگ امریکا کے ممالک نے ممالک کو سکتا ہے ٹرمپ کی ہیں اور کے ساتھ رہے ہیں ٹرمپ کے کے لیے

پڑھیں:

پاکستانیوں کے لیے خطرہ، جلد امریکا میں داخلے پر پابندی کے خدشات بڑھ گئے

ممالک کی سلامتی اور جانچ کے خطرات کے بارے میں حکومتی جائزے کی بنیاد پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی سفری پابندی اگلے ہفتے افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روک سکتی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دیگر ممالک بھی سفری پابندی سے متاثر ملکوں کی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کون سے ممالک ہوں گے،

یہ اقدام ریپبلکن صدر کی 7 اکثریتی مسلم ممالک سے آنے والے مسافروں پر ان کی پہلی مدت صدارت کے دوران پابندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، ایک ایسی پالیسی جو 2018 میں سپریم کورٹ کی جانب سے برقرار رکھنے سے قبل کئی مرتبہ تکرار سے گزری تھی۔

یہ بھی پڑھیں:پاک امریکا انٹیلیجنس تعاون جاری رہتا ہے، شریف اللہ کی گرفتاری اور حوالگی کوئی الگ واقعہ نہیں، ترجمان دفتر خارجہ

ٹرمپ کے بعد آنے والے ڈیموکریٹ سابق صدر جو بائیڈن نے 2021 میں مذکورہ پابندی کو منسوخ کرتے ہوئے اسے ’ہمارے قومی ضمیر پر داغ‘ قرار دیا تھا۔

تاہم موجودہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے متوقع نئی پابندی ان ہزاروں افغان شہریوں کو متاثر کر سکتی ہے جنہیں امریکا میں پناہ گزینوں کے طور پر یا خصوصی تارکین وطن کے ویزوں پر دوبارہ آباد ہونے کے لیے کلیئر کیا گیا تھا۔

کیونکہ ان افغان شہریوں کو اپنے ملک میں 20 سالہ جنگ کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے پر طالبان کے ہاتھوں انتقام کا خطرہ ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر ٹرمپ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردیں

صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں قومی سلامتی کے خطرات کا پتا لگانے کے لیے امریکا میں داخلے کے خواہشمند کسی بھی غیر ملکی کی سیکیورٹی جانچ کی ضرورت ہے۔

اس حکم نے کابینہ کے متعدد ارکان کو 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، جہاں سے سفر جزوی طور پر یا مکمل طور پر معطل کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی جانچ اور اسکریننگ کی معلومات بہت کم یا ناکافی ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں 3 قابل اعتماد ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہےکہ افغانستان کو سفری پابندی کے لیے تجویز کردہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جبکہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: روس نے 500 امریکی شخصیات کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی

اسٹیٹ، جسٹس اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکموں اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے، جن کے رہنما اس اقدام کی نگرانی کر رہے ہیں، اس ممکنہ سفری پابندی کے حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا فوری جواب نہیں دیا ہے۔

افغان ایویک ہیش ٹیگ کے سربراہ، ایک اتحاد جو افغانوں کے انخلا اور آبادکاری کو امریکی حکومت کے ساتھ مربوط کرتاہے، شان وین ڈیور نے ان لوگوں پر جلد از جلد امریکا سفر کرنے پر زور دیا ہے جو امریکی ویزے کے حامل ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، لیکن امریکی حکومت کے متعدد ذرائع بتاتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے ایک نئی سفری پابندی کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ کا کولمبیا پر 25 فیصد محصولات سمیت پابندیوں کا اعلان

انہوں نے کہا کہ اس سے ان افغان ویزا ہولڈرز پر خاصا اثر پڑ سکتا ہے جو امریکا منتقلی کا انتظار کر رہے ہیں، تقریباً 2 لاکھ افغان ایسے ہیں جن کی امریکا میں آبادکاری کی منظوری دی گئی ہے یا جن کے پاس امریکا میں پناہ گزین اور خصوصی امیگرنٹ ویزا کی درخواستیں زیر التوا ہیں۔

یہ افغان شہری 20 جنوری سے افغانستان اور تقریباً 90 دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں، ان میں سے تقریباً 20 ہزار پاکستان میں بھی پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ صدر ٹرمپ نے پناہ گزینوں کے داخلے اور ان کی پروازوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے والی غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے منجمد کردیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسکریننگ افغان امریکا امیگرنٹ ویزا پاکستانی پناہ گزین جسٹس اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی سفری پابندی صدر ٹرمپ نیشنل انٹیلی جنس ویزا ہولڈرز

متعلقہ مضامین

  • تم تیسری عالمی جنگ کا جوا کھیل رہے ہو
  • متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں
  • پاکستانیوں کے لیے خطرہ، جلد امریکا میں داخلے پر پابندی کے خدشات بڑھ گئے
  • امریکا سے اقتصادی، جوہری اور روائتی جنگ کےلئے تیار ہے، چین
  • ٹرمپ کا درآمدات پر ٹیکس، امریکا میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ
  • چین نے تجارتی غنڈہ گردی کی سختی سے مخالفت کر دی
  • ٹیرف جنگ شدت اختیار کر گئی: کینیڈا نے بھی امریکا پر 25 فیصد جوابی ٹیرف لگا دیا
  • کینیڈا نے ٹرمپ کی احمقانہ تجارتی جنگ کی مذمت کرتے ہوئے جوابی ٹیکس عائد کردیا
  • کینیڈا، میکسیکو اور چین کیساتھ تجارتی جنگ کا خدشہ، ٹرمپ کانگریس سے خطاب کرینگے