اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر
وہائٹ ہاؤس میں اپنے 43 دن گزارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے پہلے مشترکہ اجلاس میں حسب معمول اپنا طویل خطاب کیا۔ تالیوں کی گونج میں انہوں نے اعلان کیا کہ”امریکہ واپس آگیا ہے“ گویا امریکہ کو اس سے پہلے چار سال کے لیے کسی نے اغوا کر لیا تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشششوں سے وہ اپنے گھر واپس آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھے ہفتے قبل ”کیپیٹل ہل“ کے گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر انہوں نے یہ کہ دیا تھا کہ ”امریکہ کے سنہری دور کی صبح کا آغاز ہوگیا ہے“۔ اگرچہ اس نئی صبح کو اگر کوئی یوکرین کے صدر زیلنسکی کی آنکھ سے دیکھے تو اس کی نوک زباں پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ آ جائے گا کہ:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اپنی کامیابیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے حوالے سے کہا کہ ”ہماری صدارت قومی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب صدارت ہے“ اور جارج واشنگٹن کی صدارت کو انہوں نے دوسرے نمبر کی صدارت قرار دیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا کوئی سیاسی لیڈر یہ کہے کہ قائداعظم کے بعد وہ قائداعظم ثانی ہے۔ اپنی زبان سے میاں مٹھو بننے کے لیے کسی خاص قسم کی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دیکھ قدرت کے کارخانے میں
مجھ سا کوئی نہیں زمانے میں
ایک جانب جہاں انہوں نے اپنی صدارت کو امریکہ کے افق پر ابھرتی ہوئی نئی صبح سے تعبیر کیا وہاں انہوں نے امریکہ کے جنوبی سرحدی افق پر ”قومی ایمرجنسی“ کا اعلان بھی کردیا اور انکشاف کیا کہ ”ہم نے اپنی اس سرحد پر امریکی فوج اور سرحدی گشتی دستوں کو تعینات کر دیا ہے جو ہمارے ملک پر کسی بھی حملے کو پسپا کریں گے“۔ انہوں نے جوبائیڈن کو امریکی تاریخ کا بدترین صدر کہا اور ان پر الزام لگایا کہ ان کے دور حکومت میں ہر ماہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوتے تھے۔ انہوں نے حاضرین کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ”خلیج میکسیکو“ کے نام کو ”خلیج آف امریکہ“ کے نام سے بدلنے کے آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔
اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے مخصوص انداز میں طنز کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میں آج کی شب اپنے سامنے ڈیموکریٹک قانون سازوں کو دیکھ رہا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ میں آج ایسا کچھ نہیں کہ سکتا جس کو سن کر وہ خوش ہو جائیں، اپنے بنچوں سے کھڑے ہو جائیں اور تالیاں بجائیں“۔ ٹرمپ جو اپنی انتخابی جیت پر شادیانے بجا رہے تھے اور اسے اپنی ایک عظیم فتح قرار دے رہے تھے، ان کی تقریر کے درمیان ٹیکساس کے ڈیموکریٹک نمائندے ایل گرین نے یہ کہ کر واک آوٹ کر دیا کہ ”آپ کے پاس مسائل کا کوئی علاج نہیں ہے“۔ ٹرمپ نے جہاں جو بائیڈن پر کئی الزامات لگائے وہاں ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے انڈوں کی قیمتوں کو کنٹرول سے باہر جانے دیا اور وہ انہیں دوبارہ کنٹرول میں لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
گویا ایک کاروبای ذہن رکھنے والے ٹرمپ کے نذدیک انڈوں کی تجارت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ عمران خان نے قوم کو جو مرغیاں پالنے کا مشورہ دیا تھا اسے غیرسنجیدگی سے لینا یقیناً بین الاقوامی مارکیٹ سے لاعلمی کا مظہر ہے۔ ٹرمپ کی تقریر کے دوران متعدد امریکی ایوان نمائندگان واک آوٹ کر گئے۔ ان میں سے اکثر ”خواتین اور خاندانوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے منفی اثرات“ پر احتجاجاً گلابی رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معتضرین اپنے اپنے انداز میں احتجاج کر رہے تھے۔ امریکی صدر نے کانگریس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ امریکہ کے دفاع کے لیے ”گولڈن ڈوم میزائل دفاعی سسٹم“ کے لیے فنڈ منظور کرے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ”گرین لینڈ“ کو جس طرح چاہیں حاصل کریں گے۔ ان کے کہنے کے مطابق ان کی حکومت ”پاناما کینال“ پر دوبارہ دعویٰ کرے گی۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔
انہوں نے مغربی ایشیا کے خطے میں ”ابراھیمی معاہدے“ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ صیہونی حکومت اور بعض حکومتوں کے مابین تعلقات کی استواری کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق وہ صیہونی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب باتوں کے باوجود حیران کن طور پر انہوں نے اپنے اس لمبے خطاب میں مریخ پر امریکی پرچم لہرانے کا ذکر تو کیا لیکن ایران کا ذکر گول کر گئے۔ حالانکہ ایران کا ذکر گزشتہ کئی صدور کا پسندیدہ ٹاپک رہا ہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خطاب کو سامنے رکھ کر ان کے آئندہ کے کسی اقدام کے بارے میں درست پیشینگوئی اس لیے ناممکن ہے کیونکہ ٹرمپ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امریکی فوجیوں ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں اور کہا کہ امریکہ کے کہا کہ وہ انہوں نے دیا اور نے اپنے نے اپنی کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
یورپ کو اپنی سکیورٹی خود سنبھالنی ہو گی، فریڈرش مرز
جرمنی کے ممکنہ چانسلر کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی کہ امریکہ یورپ میں موجود رہے، لیکن ہمیں اپنی دفاعی حکمت عملی پر زیادہ انحصار کرنا ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ جرمنی کے ممکنہ چانسلر فریڈرش مرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ملاقات کے دوران جان بوجھ کر کشیدگی کو ہوا دی۔ مرز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں ٹرمپ کا رویہ غیر متوقع اور غیر مددگار تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران ٹرمپ نے زیلنسکی کو جھڑک دیا اور کہا کہ وہ امریکی مدد پر زیادہ "شکر گزار" نہیں اور روس کے ساتھ امن معاہدہ کریں۔ مرز نے کہا کہ یہ محض زیلنسکی کے الفاظ پر فوری ردعمل نہیں تھا، بلکہ ایک سوچا سمجھا اقدام لگتا ہے۔ مرز نے خبردار کیا کہ یورپ کو مستقبل میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ ذمہ داری لینی ہو گی، کیونکہ امریکہ کی پالیسی میں تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی کہ امریکہ یورپ میں موجود رہے، لیکن ہمیں اپنی دفاعی حکمت عملی پر زیادہ انحصار کرنا ہو گا۔" مرز نے یوکرین کے لیے جرمن حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیف کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹارس میزائل فراہم کرنے کے حامی ہیں، جنہیں روس کے اندر اہداف پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولز نے ان میزائلوں کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ اس سے روس کے ساتھ براہ راست تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جرمنی یوکرین کے لیے امریکہ کے بعد سب سے بڑا امدادی فراہم کنندہ ہے اور 10 لاکھ سے زائد یوکرینی مہاجرین کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔