پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مارچ 2025ء) پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی سالانہ بنیادوں پر جاری کردہ فہرست میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ اس جنوب ایشائی ملک میں گزشتہ برس دہشت گردی کی وارداتوں میں مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار اکیاسی تک پہنچ گئی تھی، جو کہ اس سے گزشتہ برس یعن 20203ء کی نسبت پینتالیس فی صد زیادہ تعداد تھی۔
اس بات کا انکشاف انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی طرف سے رواں برس کے لیے جاری کیے جانے والے گلوبل ٹیررازم انڈیکس دو ہزار پچیس میں کیا گیا ہے۔ سڈنی میں دو ہزار سات میں قائم کیے جانے والے دنیا کے اس ممتاز تھنک ٹینک کی تحقیق کو اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے عالمی تحقیقاتی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
اپنے بارہویں سالانہ انڈیکس میں انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس نے دہشت گردانہ حملوں، ان میں ہونے والی ہلاکتوں، زخمیوں اور مغویوں کے اعدادوشمار کے حوالے سے دنیا کے ایک سو تریسٹھ ممالک کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر افریقی ملک برکینا فاسو، دوسرے پر پاکستان اور تیسرے نمبر پر شام ہے۔جبکہ مالی چوتھے اور نائیجر پانچویں نمبر پر رہے۔
انڈیکس کے مطابق یہ مسلسل پانچواں سال ہے، جب پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، پاکستان میں 2023ء میں 517 حملے رپورٹ ہوئے تھے، جو سال دو ہزار چوبیس میں ایک ہزار نناوے تک پہنچ گئے۔
یہ پچھلے دس سالوں کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی سالانہ تعداد میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ تھا۔انڈیکس کے مطابق دنیا میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے ممالک کی تعداد اب اٹھاون سے بڑھ کر چھیاسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔ عالمی دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ اپنے حمایتی گروپوں کے ساتھ مہلک ترین دہشت گرد تنظیم کو طور پر اب بھی موجود ہے اور اس کا نیٹ ورک بائیس ملکوں تک پھیل چکا ہے۔
انڈیکس کے مطابق دیگر نمایاں دہشت گرد تنظیموں میں جماعت نصرت الاسلام والمسلمین ، تحریک طالبان پاکستان اور الشباب وغیرہ شامل ہیں۔ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں افریقی خطہ ساحل بھی شامل ہے۔
گلوبل انڈیکس رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملک میں سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024ء میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔
گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023ء کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے تیزی سے بڑھے ہیں۔
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 2024ء میں پاکستان کا سب سے مہلک حملہ کیا تھا، جس میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دو ہزار چوبیس میں بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملوں کی تعداد 116 سے بڑھ کر 504 ہو گئی جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبے رہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے بتایا، ''پاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول کئی ملکوں کی ایجنسیاں بھی اپنے مذموم مقاصد کے تحت پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ صرف طاقت سے ممکن نہیں ہے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک ایسا نظام لانا ہوگا، جس میں لوگ حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کریں اور ان کے مشورے اور حمایت ان پالیسیوں میں شامل ہو۔
پنجاب یونیورسٹی میں سماجی علوم کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر ارم خالد کا کہنا تھا،'' دہشت گردی پاکستان کا مستقل مسئلہ ہے یہ کم اور زیادہ تو ہوتی رہتی ہے لیکن حالیہ سالوں میں کبھی ختم نہیں ہو سکی۔‘‘ ان کے مطابق دہشت گردی عوام کی حمایت سے عاری روایتی پالیسیوں سے ختم نہیں ہو سکتی ان کے بقول، ''پاکستان میں اصل مسئلہ انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں پر عمل درآمد کا بھی ہے۔
یہ بھی دیکھنا چاہئےیے کہ یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے اور ان پالیسیوں میں عوام کی کتنی مشاورت شامل ہے۔‘‘دفاعی تجزیہ کار برگیڈئیر (ر) فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا معاملہ اس وقت سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ ''اگر ملک میں انصاف نہ ملنے پر لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں، نوجوان مایوس ہو کر ملک چھوڑ رہے ہوں اور عام آدمی مشکلات کا شکار ہو تو اس غیر یقینی صورتحال میں بھارت اور افغانستان سمیت پاکستان کے مخالف ملکوں کو صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ہے۔
‘‘ان کے خیال میں پاکستان کی ملٹری اور سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر عوامی تائید اور حمایت سے دہشت گردی کے خلاف کوئی موثر لائحہ عمل بنانا چاہییے۔ ان کے بقول اس ضمن میں سیاست دانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ طاقت کے استعمال سے رد عمل بڑھتا ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے سیاسی لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انڈیکس کے مطابق پاکستان میں میں ہونے کی تعداد ملک میں نے والے
پڑھیں:
2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا، رپورٹ
فوٹو فائل2024ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا، عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025ء میں دوسرے نمبر پر آ گیا۔
ملک میں دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1,081 تک پہنچ گئی، 2023ء میں 517 حملے رپورٹ ہوئے تھے، جو 2024ء میں بڑھ کر 1,099 تک جا پہنچے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) ملک میں تیزی سے بڑھنے والی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024ء میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔
گزشتہ سال TTP نے 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023ء کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حملے تیزی سے بڑھے ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملے 116 سے بڑھ کر 504 ہو گئے، جبکہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بھی چار گنا بڑھ کر 388 ہو گئی۔
حکومت پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن عزمِ استحکام شروع کر رکھا ہے، جس کا مقصد شدت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنا اور سیکیورٹی کو مستحکم کرنا ہے۔