وڈھ، اختر مینگل آٹھ روز سے تھانے میں موجود، گرفتاری یا مقدمات کے خاتمے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
پولیس کا کہنا ہے کہ حکومت کے اختر مینگل کو گرفتاری کے احکامات نہیں ہیں، جبکہ مقدمات کا خاتمہ بھی حکومت کے اختیار میں ہے۔ اختر مینگل اپنی مرضی سے تھانے میں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ اختر جان مینگل گزشتہ آٹھ روز سے احتجاجا کے طور پر وڈھ پولیس اسٹیشن خضدار میں از خود گرفتاری کیلئے موجود ہیں۔ انکا مطالبہ ہے کہ یہ تو 1200 افراد کے خلاف درج بوگھس مقدمات ختم کئے جائیں، یا انکو گرفتار کیا جائے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سردار اختر مینگل اپنی مرضی سے پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہیں اور یہی پر سحری اور افطار بھی کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے انہیں گرفتار کرنے کے کوئی احکامات نہیں ملے ہیں، جس کی بناء پر اختر مینگل کو گرفتار نہیں کر سکتے ہیں۔ مقدمات ختم کرنے کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہے۔
پولیس کے مطابق وڈھ میں پولیس کی جانب سے سردار اختر جان مینگل کے بیٹے گورگین مینگل سمیت 1200 افراد کے خلاف پولیس اہلکاروں پر تشدد اور انہیں یرغمال بنانے سمیت دیگر الزامات ہیں۔ متنازع شخص شفیق مینگل کے کارکن علی شیر گرگانی کی ہلاکت کے بعد پولیس نے بعض ملزمان کی گرفتاری کیلئے وڑھ بازار میں چھاپہ مارا۔ پولیس نے الزام عائد کیا کہ گورگین مینگل سمیت 600 کے قریب افراد نے پولیس کو یرغمال بنایا اور ملزمان کو چھڑا دیا۔ جس پر ان کے خلاف مقدمار درج کئے گئے۔ اس حوالے سے گورگین مینگل کا کہنا ہے کہ پولیس نے جعلی مقدمات میں کمسن بچوں سمیت ان افراد کا نام بھی شامل کیا ہے، جو اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ گورگین مینگل نے الزام عائد کیا کہ متنازعہ شخص شفیق مینگل و دیگر دہشتگردوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ حکومت نے عوام پر دباؤ ڈالنے کیلئے انہیں جعلی مقدمات میں نامزد کروایا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اختر مینگل
پڑھیں:
بی جے پی حکومت کے شدید دبائو کے باعث کشمیری وکلاء سیاسی مقدمات لینے سے کترا رہے ہیں
قابض حکام اور بھارتی ایجنسیوں کے دبائو کے باعث ہی سینئر قانون دان اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں عبدالقیوم کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر سے باہر کے وکلاء کو لانا پڑتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں وکلاء کا کہنا ہے کہ دہلی کی مسلط کردہ منوج سنہا انتظامیہ کے شدید دبائو کے باعث وہ سیاسی مقدمات نہیں لڑ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں کو درپیش اہم قانونی اور انسانی حقوق کے مسائل کی عکاسی ہوتی ہے جہاں وکلاء کو بی جے پی کی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں سے شدید دبائو کا سامنا ہے کہ وہ ایسے افراد کے کیسز نہ لیں جو تحریک آزادی سے وابستہ ہیں۔ سیاسی نوعیت کے کیسز لینے میں وکلاء کی اس ہچکچاہٹ سے ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے جس سے مقدمات کا سامنے کرنے والے کشمیری نظربندوں کے لئے شدید مسائل پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ عدالتوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث قابض حکام انہیں جرم کا ارتکاب کئے بغیر اپنی مرضی کی مطابق سزائیں دلا سکتے ہیں۔ قابض حکام اور بھارتی ایجنسیوں کے دبائو کے باعث ہی سینئر قانون دان اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر میاں عبدالقیوم کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے مقبوضہ جموں و کشمیر سے باہر کے وکلاء کو لانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال سے مقبوضہ علاقے میں مقدمات کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کو منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔