نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی 13 برس بعد اپنے آبائی گاؤں لوٹ آئیں۔
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
انسانی حقوق کی علم بردار اور نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی 13 برس بعد اپنے آبائی گاؤں لوٹ آئیں۔ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اس دورے کی ایک تصویر شیئر کی ہے۔ 13 برس بعد وطن واپس آنے پر کم عمر نوبیل انعام یافتہ ملالہ جذباتی ہو گئیں، انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ شیئر کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے بچپن میں اپنی ہر چھٹی پاکستان کے علاقے شانگلہ میں دریا کے کنارے کھیلتے ہوئے اور اپنے خاندان کے ساتھ کھانا بانٹتے ہوئے گزاری۔ انہوں نے لکھا کہ آج 13 برس کے طویل عرصے کے بعد یہاں واپس آنا، ایک بار پھر پہاڑوں کے درمیان ٹھنڈے دریا میں ہاتھ ڈبونا اور اپنے پیارے کزنز کے ساتھ ہنسنا میرے لیے باعثِ مسرت ہے، یہ جگہ میرے دل کو بہت عزیز ہے، امید ہے کہ میں بار بار یہاں واپس آؤں۔ ملالہ نے وطنِ عزیز کے لیے دعا کرتے ہوئے مزید لکھا کہ دعا گو ہوں کہ اس خوبصورت ملک کے ہر کونے میں امن و سلامتی کا راج ہو، یہاں کا ہر شہری سلامت رہے، گزشتہ روز بنوں سمیت حالیہ دہشت گرد حملے سے دل غمگین و اداس ہے۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں دہشت گرد حملوں کے متاثرین کے اہلِ خانہ سے تعزیت بھی کی۔ واضح رہے کہ 2012ء میں ملالہ یوسف زئی اور ان کی ساتھی طالبات پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا، اس وقت ملالہ صرف 15 برس کی تھیں، طالبان کی گولی کا نشانہ بننے کے بعد وہ بیرونِ ملک چلی گئی تھیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ملالہ یوسف زئی انہوں نے
پڑھیں:
عالمی شہرت یافتہ فلسطینی فوٹوجرنلسٹ اسرائیلی حملے خاندان سمیت شہید
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں معروف کانز فلم فیسٹول میں منتخب ہونے والی دستاویزی فلم میں اہم کردار اداکرنے والی 23 سالہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ فاطمہ حسنہ اپنے خاندان کے 9 افراد سمیت اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ میں جنگ بندی کے خاتمہ پر اسرائیلی کارروائیوں میں ابتک 5 لاکھ لوگ بے گھر
ریڈٹ کی رپورٹ کے مطابق کانز فلم فیسٹول کی طرف سے ان کی دستاویزی فلم ’پٹ یور سول آن یور ہینڈ اینڈ واک‘ کو کانز فلم فیسٹول کے معروف ادارے ایسوسی ایشن فار دی ڈفیوژن آف انڈیپینڈنٹ سنیما (اے سی آئی ڈی) کی سائیڈ بار کے ساتھ دکھائے جانے کا اعلان ایک روز قبل کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔
فاطمہ کی دستاویزی فلمفاطمہ حسنہ نے غزہ میں جنگ کی تباہی اور انسانی نقصانات کی دستاویزی تصویر کشی کرنے والی فوٹو جرنلسٹ کے طور پر بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی تھی اور ان کو فلم کی ایرانی نژاد فرانسیسی ڈائریکٹر سپیدہ فارسی نے ’روشنی‘ اور ’بہت باصلاحیت‘ قرار دیا تھا۔
دستاویزی فلم کی کہانی حسونہ اور سپیدہ فارسی کے درمیان ہونے والی وڈیو گفتگو کے گرد گھومتی ہے، جس میں ایک نوجوان عورت کی گہری تصویر کشی کی گئی ہے جو امید سے جڑے رہتے ہوئے اپنے وطن کے مٹ جانے کو دستاویز شکل دیتی ہے۔
غزہ کو چھوڑنا نہیں چاہتیرپورٹ کے مطابق فاطمہ حسنہ نے کہا تھا کہ وہ کانز فیسٹول میں شرکت کے لیے پیرس آئیں گی لیکن پھر واپس غزہ لوٹ جائیں گی کیونکہ وہ غزہ کو چھوڑنا نہیں چاہتیں، لیکن اب ان کا پورا خاندان ختم ہو چکا ہے۔
اسرائیل فضائی حملے میں شہید ہونے والوں میں فاطمہ حسونہ کے بہن بھائی بھی شامل ہیں جن میں سےان کی ایک بہن حاملہ تھی۔ فاطمہ حسنہ کی حال ہی میں منگنی ہوئی تھی اور وہ فرانسیسی سفارت خانے کے ذریعے پیرس جانے کے انتظامات کر رہی تھیں۔
بھونڈی اسرائیلی دلیلادھر اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے مذکورہ گھر کو ایک عسکریت پسند کی موجودگی کی اطلاع پر نشانہ بنایا تھا۔ فرانسیسی ادارے ایسوسی ایشن فار دی ڈفیوژن آف انڈیپینڈنٹ سنیما (اے سی آئی ڈی) جو اپنے کانز پروگرام میں فلمیں تیار کرتا ہے نے ایک بیان میں فاطمہ حسنہ کے خاندان سمیت مارے جانے کو خوفناک اقدام قراد دیا ہے۔
اے سی آئی ڈی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فاطمہ حسنہ کی مسکراہٹ اتنی ہی جادوئی تھی جتنی کہ اس کی استقامت، گواہی دینا، غزہ کی تصویر بنانا، بموں، غم اور بھوک کے باوجود کھانا تقسیم کرنا۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی شہری بھی غزہ میں جنگ بندی کے حامی، انوکھے طریقے سے احتجاج
جب ہم نے اس کی دستاویزی فلم دیکھی تو لگا کہ اس نوجوان خاتون کی زندگی کی طاقت کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔ واضح رہے کہ اے سی آئی ڈی فلمی ہدایت کاروں کی تنظیم ہے جو 1992 سے سنیما میں آزاد فلموں کی تقسیم اور مصنفین اور سامعین کے درمیان مباحثوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی حملی غزہ فاظمہ حسنہ فوٹو جرنلسٹ کانز