دہشتگردی کیخلاف جنگ امریکہ اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے:سینیٹر عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) مسلم لیگ (ن )کے رہنما و سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ امریکہ اسلحے کے ذخائر افغانستان چھوڑ گیا۔
پارلیمنٹ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ امریکی اسلحے کے ذخائر اب ہمارے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری کوشش کو ڈونلڈ ٹرمپ نے سراہا، دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ اور پاکستان کا مشترکہ مفاد ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ جب اے پی ایس کا معاملہ ہوا تھا ہم سب اکٹھے تھے، اس وقت ہمیں سیاسی مفادات ایک طرف رکھ دینے چاہئیں، نیشنل ایکشن پلان کی شقوں پر عمل نہیں ہو سکا۔ہمارے 80 ہزار شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
سندھ حکومت نے سرکاری نوکریوں کی عمر کی حد کم کر دی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی
پڑھیں:
دہشت گردی کا عفریت
سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے کینٹ میں بزدلانہ دہشت گرد حملہ ناکام بنا کر 16 حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔ شدید جھڑپ کے دوران 5 بہادر فوجی مادرِ وطن پر قربان ہوگئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 4 مارچ کو خوارج عناصر نے بنوں کینٹ پر بزدلانہ دہشت گرد حملے کی کوشش کی، دہشت گردوں نے کینٹ کی سیکیورٹی کو توڑنے کی کوشش کی، تاہم پاکستان کی مستعد اور بہادر سیکیورٹی فورسز نے ان کے ناپاک عزائم کو فوری اور فیصلہ کن کارروائی کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ حملہ آوروں نے بارود سے بھری دوگاڑیاں حفاظتی دیوار سے ٹکرا دیں۔
پاک فوج کے جوانوں نے بے مثال جرات اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کو نشانہ بنایا اور 16 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، جن میں 4 خودکش بمبار بھی شامل ہیں۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس شدید جھڑپ میں 5 بہادر فوجی مادرِ وطن پر قربان ہو گئے، خودکش دھماکوں کی وجہ سے حفاظتی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا، جس سے ملحقہ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ بیان میں کہا گیا کہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس سے ایک مسجد اور رہائشی عمارت بھی تباہ ہو گئی، جس کے نتیجے میں 13 بے گناہ شہری شہید ہوگئے جب کہ 32 زخمی ہو گئے۔یوں دہشت گردوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو لیکن وہ مسلمان ہرگز نہیں ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق خفیہ اداروں کی تحقیقات میں واضح طور پر ثابت ہوا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے میں افغان شہری براہِ راست ملوث تھے، شواہد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی افغانستان میں موجود خوارج کے سرغنہ کر رہے تھے۔
پاکستان اب بھی یہ امید رکھتا ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے گی اور اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی، پاکستان اپنی سرحدوں کے پار سے ہونے والے ان خطرات کے جواب میں ہر ممکن اقدامات اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم پر قائم ہیں، ہمارے بہادر فوجیوں اور بے گناہ شہریوں کی قربانیاں ہمارے اس غیر متزلزل عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں، ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر قیمت چکانے کو تیار ہیں۔
افطارکے وقت معصوم شہریوں اور مسجدکو نشانہ بنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان خارجیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بنوں پشاور سے 197 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سرحد شمالی وزیرستان سے ملتی ہے اور یہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے بہت قریب ہے، جہاں سے دہشت گردی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب وہاں سے کسی ناخوش گوار واقعے کی اطلاع نہ آتی ہو۔ دہشت گردی کے ناسور نے ملک میں دوبارہ سر اٹھایا ہے ۔
پاکستان اس ناسورکا بوجھ اٹھا کر ہی نئے سال میں داخل ہوا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں، وہ دہشت گردوں کے خلاف مسلسل انٹیلی جنس بیسڈ فوجی آپریشنز کر رہے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف ہیں۔ قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ تاہم ان کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔
اس کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سابق دور میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو واپس آنے کی اجازت دینا اور ان کی آباد کاری میں مدد فراہم کرنا، ایک بھیانک غلطی ثابت ہوئی ہے، اس کی قیمت سیکڑوں جانوں کی صورت میں ادا کی گئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خیبر پختونخوا کی انتظامیہ کی کارکردگی ، صلاحیت،اہلیت اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیسا ہے، اس کا بھی سب کو پتہ ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیاسی بیانیہ ہو یا مذہبی قیادت کا بیانیہ ، کئی نظریاتی کمزوریوں کا شکار ہے جب کہ علاقائی مفادات اور علاقائی نفسیات اور علاقائی طبقاتی تقسیم نے بھی انتہاپسند بیانئے کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی کاؤنٹرسیاسی بیانیہ تشکیل دیا اور نہ نظریاتی طور پر اپنے کارکنوں کی تربیت کی ہے ، محض بیانات دینے سے انتہاپسندی کا کلچر اور نفسیات ختم نہیں کی جاسکتی۔
اس کے لیے تعلیمی نصاب میں جوہری تبدیلی لانا ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پرانے اور بوسیدہ سماجی و معاشرتی نظام میں تبدیلی لانا ضروری ہے، جس طرح شمالی و وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں درمیانے طبقے کا پھیلاؤ ہوا ہے، تعلیم یافتہ اور ہنرمند طبقات وسیع ہوئے ہیں اور ان کا معاشرے میں اثر ورسوخ بڑھا ہے، کراچی اور حیدر آباد میں درمیانہ طبقہ مضبوط ہوا ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی ایسے اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جس سے پڑھے لکھے درمیانے طبقے کا حجم بڑھے۔
اقوام متحدہ بھی اپنی رپورٹ میں انکشاف کرچکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملے بڑھنے کی وجہ ٹی ٹی پی کے لیے افغان طالبان کی مسلسل مالی اور لاجسٹک مدد ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024کے دوران اْس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ بھاری رقم فراہم کررہے ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی کے نئے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ طالبان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغان سرحد سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد مسلسل پاکستان میں حملے کر رہے ہیں اور پاکستان دہشت گردی میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی افغان حکومت کو پیش کرچکا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے خلاف صوبے کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے واقعات اور امن و امان کی غیر تسلی بخش صورت حال کے خلاف عوامی سطح کا احتجاج بھی زور پکڑ رہا ہے۔ پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے بہت سے جنگجوؤں کی واپسی کے بعد جنوبی وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا، قتل اور بھتہ خوری میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ سوات اور دیر میں پاکستانی طالبان کی موجودگی سے متعلق ناقابل تردید شواہد سامنے آئے۔
بڑے واقعات کے علاوہ پورے صوبہ خیبر پختونخوا میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور خصوصاً سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں جو جدید اسلحہ لگا، اس کے بعد شدت پسندوں کی کارروائیاں زیادہ پُراثر اور منظم انداز میں ہونے لگی ہیں۔ فوج متعدد آپریشنز کرچکی اور ہزاروں شہدا قربان کرچکی ہے۔
خیبر پختونخوا کے حالات پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ جس وقت پاکستانی فوج 2014 میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف فوجی آپریشن کررہی تھی اس وقت انھیں صرف ایک ہی گروہ کا سامنا تھا لیکن اب حافظ گل بہادرگروپ سمیت دیگرگروہ بھی متحرک ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں کثیر الجہتی ہیں ۔ سیاسی و معاشی مفاد پرستی نے بھی انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسند گروہوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔ پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے لیے میدان جنگ بننے کے لیے حساس بنا دیا ہے جو دہشت گردی کے پھیلاؤ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
سماجی و اقتصادی تفاوت، تعلیم کی کمی اور روزگارکے محدود مواقعے نے بہت سے لوگوں کو انتہا پسندانہ نظریات کے خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں نئے اراکین کی بھرتی کے لیے ان عوامل کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ملک کی پیچیدہ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم نے بھی فرقہ وارانہ تشدد کو بڑھانے اور اس مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حالیہ برسوں میں پاکستانی معاشرہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف تیزی سے آواز اٹھا رہا ہے۔دہشت گرد گروہوں کے اثر و رسوخ کو روکنے اور پاکستان اور پورے خطے کے پرامن مستقبل کو فروغ دینے کے لیے سیکیورٹی فورسز، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی کوششیں ناگزیر ہیں۔