50 سے زائد خواتین سے زیادتی، چینی طالب علم برطانیہ کا خطرناک ترین جنسی مجرم قرار
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
لندن: برطانیہ میں زیر تعلیم چینی طالب علم ژینہاؤ زو کو متعدد خواتین کو نشہ دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ کے خطرناک ترین جنسی مجرموں میں شامل ہو سکتا ہے، جبکہ پولیس کو شبہ ہے کہ اس کے شکار ہونے والی خواتین کی تعداد 50 سے زائد ہو سکتی ہے۔
28 سالہ زو 2017 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ آیا تھا۔ وہ پہلے کوئینز یونیورسٹی بیلفاسٹ میں زیر تعلیم تھا اور بعد میں یونیورسٹی کالج لندن (UCL) سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ وہ امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور مہنگی رہائش، برانڈڈ کپڑوں اور کاسمیٹک سرجری پر لاکھوں خرچ کرتا تھا۔
زو نے خفیہ کیمرے لگا کر خواتین کی ویڈیوز بنائیں اور نشہ آور کیمیکل استعمال کرکے انہیں اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ پولیس کے مطابق، وہ 2019 سے 2024 تک برطانیہ اور چین میں خواتین پر حملے کرتا رہا۔
پولیس کو زو کے گھر سے متاثرہ خواتین کے کپڑے اور زیورات ملے، جنہیں وہ یادگار کے طور پر جمع کرتا تھا۔ تفتیش میں 9 مختلف ریپ کی ویڈیوز سامنے آئیں، جنہیں اس نے خود ریکارڈ کیا تھا۔
عدالت میں جب ان ویڈیوز کو پیش کیا گیا تو ججز اور جیوری کے افراد جذباتی ہو گئے۔ جج روزینا کاٹیج نے زو کو "خطرناک اور شکاری مجرم" قرار دیا اور کہا کہ اسے سخت سزا دی جائے گی۔
میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق، میڈیا کوریج کے بعد ایک خاتون نے پولیس سے رابطہ کیا ہے اور مزید متاثرین سے سامنے آنے کی اپیل کی گئی ہے، خاص طور پر لندن میں چینی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین سے۔
زو کو 11 بار ریپ، 3 بار ویوئرزم (خفیہ ویڈیوز بنانے)، 10 بار انتہائی فحش مواد رکھنے اور 3 بار جنسی جرم کے ارادے سے نشہ آور اشیا رکھنے کے الزامات میں مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔
اس نے اپنی صفائی میں کہا کہ یہ تمام حرکات "رضامندی پر مبنی کردار ادا کرنے" کا حصہ تھیں، لیکن عدالت نے اس کا دفاع مسترد کر دیا۔
یونیورسٹی کالج لندن (UCL) نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اس جرم پر "شدید صدمے" میں ہیں، جبکہ پراسیکیوشن نے زو کو "سلسلہ وار ریپسٹ اور خواتین کے لیے خطرہ" قرار دیا ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
پشاور:وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کےد وران کہا کہ میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے سزا دیں مگر ایسے غائب نہ کریں۔
ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے ملازم کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، جس میں لاپتا شخص کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے درخواست گزار کو گھر سے اٹھایا۔
وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ سے میرے بیٹے کو لاپتا کیا گیا ہے۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد وطن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے کہ اسے غائب کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے نے اگر کچھ کیا ہو تو سزا دیں، لیکن اس طرح غائب نہ کریں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے پولیس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔