مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہے اس کی آئین میں کوئی اجازت نہیں: جج آئینی بینچ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں ریمارکس دیتےہوئے آئینی بینچ کے جج نے کہا کہ مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہے اس کی آئین میں کوئی اجازت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بینچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس دوران لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کے دلائل دیے۔

سماعت کے آغاز میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں پیش کی گئیں جن میں کہا گیا کہ شہریوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی معروضات میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، اس سے قبل پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ان ساری باتوں کاملٹری ٹرائل سےکیاتعلق ہے؟ ملک میں کب مارشل لا لگا،اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے؟ آئین میں مارشل لا کی کوئی اجازت نہیں، اس پر وکیل حامد خان نے کہا مارشل لا کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے، سپریم کورٹ فیصلے سے مارشل لا کا راستہ بند ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئین میں مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں، مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مارشل لا ماورائے ا ئین اقدام بار ایسوسی ایشن کوئی اجازت نہیں ملٹری ٹرائل سپریم کورٹ

پڑھیں:

آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن WhatsAppFacebookTwitter 0 6 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے خلاف اپیلوں پر سماعت کررہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان دلائل کے دلائل جاری ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری معروضات عدالت میں جمع کراتے ہوئے ہوئے کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیئے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے، آرمی ایکٹ کی شقوں کوغیرآئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل کے آغاز میں سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔

حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا، پاکستان میں پہلا آئین 1956 میں آیا، پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • اگر ملٹری کورٹس کیلئے آئینی ترامیم آ جائے تو آپ کا موقف کیاہوگا،جسٹس جمال مندوخیل  کا حامد خان سے مکالمہ 
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس؛ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے معروضات جمع کرا دیں
  • ملٹری ٹرائل کیس، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ بار
  • آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
  • آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس مظاہر، قانون میں ملٹری کورٹ نہیں، کورٹ مارشل: جسٹس مندوخیل
  • سویلین کا ملٹری ٹرائل، ملٹری کورٹس عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس محمد علی مظہر
  • مسلح افواج عدلیہ کا حصہ نہیں، کسی فیصلے میں نہیں لکھا ملٹری کورٹ عدلیہ ہے: رکن آئینی بینچ
  • ملٹری کورٹ پر اعتراض ہے کہ ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا، جسٹس محمد علی مظہر
  • سویلین کا ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے،آئینی بینچ