لاپتا افراد کیسز کی سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائیکورٹ کا اسپیشل بینچ ٹوٹ گیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
لاپتا افراد سے متعلق درجنوں کیسز کی سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا اسپیشل بینچ ٹوٹ گیا۔
جسٹس ارباب محمد طاہر نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی ہے۔ اسپیشل بینچ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کر رہا تھا ، جس میں جسٹس طارق جہانگیری بھی شامل تھے ۔
جسٹس محسن اختر کیانی کے مطابق جسٹس ارباب محمد طاہر بینچ سے الگ ہو گئے ہیں۔ بینچ کی تشکیل نو کے لیے فائل قائم مقام چیف جسٹس کو بھجوا دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ لاپتا افراد کے بڑی تعداد میں کیسز بینچ میں سماعت کے لیے مقرر تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاپتا افراد
پڑھیں:
کورٹ اسٹاف سائلین اور وکلاء سے رقم کا مطالبہ کرتا ہے، جسٹس بابر ستار نے خط لکھ دیا
جسٹس بابرستار : فوٹو فائلاسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے سائلین کی شکایت پر انکوائری کیلئے رجسٹرار کو خط لکھ دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس بابر ستار کی ہدایت پر ان کے سیکریٹری نے رجسٹرار کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہوکر آئے اسٹاف کی سائلین سے رشوت لینےکی شکایات ہیں۔
جسٹس بابر ستار کی ہدایت پر لکھے خط کی نقول تمام ججز کے سیکریٹریز کو بھی ارسال کر دی گئی ہیں۔
ججز کے خط میں کہا گیا کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کےلیے بامعنی مشاورت ضروری ہے، دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کےلیے وجوہات دینا بھی ضروری ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ میرے علم میں لایا گیا ہے کورٹ اسٹاف سائلین اور وکلاء سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تباہ کن پریکٹس نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، سائلین سے رقم لینے والے عملے کے خلاف انکوائری کرکے برائی کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔
خط میں کہا گیا کہ اسلام ہائی کورٹ کے کورٹ رومز اور کوریڈورز کی ویڈیو مانیٹرنگ ہوتی ہے، رجسٹرار آفس دو ہفتے کی فوٹیج نکال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسٹاف مطالبہ کرکے رقم لے رہا ہے، اگر ایسے مطالبات کی رپورٹس درست ثابت ہوں تو ملوث اسٹاف کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
جسٹس بابر ستار کے خط میں کہا گیا کہ کورٹ ملازمین کا کسی وکیل یا سائل سے رقم لینا رشوت ستانی کے زمرے میں آتا ہے، اس طرح رقم لینا انصاف کی فراہمی کے بدلے میں رینٹ لینے کے مترادف ہے، اس پریکٹس کو کارروائی کرکے ختم نہیں کیا جاتا تو اسلام آباد ہائیکورٹ کا کلچر خراب ہوگا۔