Daily Ausaf:
2025-03-06@12:37:37 GMT

بغل میں چھری منہ میں رام رام

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

بغل میں چھری منہ میں رام رام ، صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ’’ ہندوتوا‘‘کی ذہنیت اور پالیسی ہے۔ یقین نہ آئے تو ہندوتوا کے سٹریٹجک گرو یا فلسفی اچاریہ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کا مطالعہ کرلیں ، اس کا تمام تر فلسفہ منافقت ، دو رنگی اوردھوکہ دہی پر کھڑا ہے۔وہ جھوٹ اور منافقت کو عظیم فلسفہ کہتا ہےا ور مودی سرکار اس فلسفی کو اپنا باپ ، مہان گرو اور نا معلوم کیا کیا مانتی ہے ، دوسرے لفظوں میں جو حیثیت فتنہ انتشار کے لئے روحونیت کے بانی امام انتشار کی ہے۔ ویسے کوئی زیادہ فرق بھی دونوں میں نہیں ہے ، جھوٹ، منافقت دو رنگی اور دھوکہ دہی دونوں کا طرہ امتیاز اور شناخت ہے ۔ معلوم نہیں امام انتشار چانکیہ کا چیلا ہے یا اس کا پرتو ۔ بہرحال آج زیر بحث چانکیہ کے بھارتی چیلے مودی کی منافقت زیر بحث ہے ، جس کا بھانڈہ خود بھارتی میڈیا نے بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ ،یہ کھلی منافقت نہیں تو اورکیاہے کہ ایک طرف بھارت دنیا میں سب سے زیادہ گائے کا گوشت برآمد کرنے والاملک بن گیا ہے اور دوسری طرف بی جے پی حکومت ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے گائے کے تحفظ کے کالے قوانین نافذ کر رہی ہے۔صرف 2024 میںبھارت کی گائے کے گوشت کی برآمدات 1.

57ملین میٹرک ٹن رہی ہیں ،جس سے 388ارب روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔اس سب کے باوجود بی جے پی مسلمانوں کو دبانے کے لیے گائے کے تحفظ کے کالے قوانین کا استعمال کر رہی ہے۔ گائے کی نقل وحرکت اورخریدو فروخت میں ملوث افرادکو سخت سزائیں دے رہی ہے۔ہندو قوم پرست تنظیموں سے وابستہ گائے کے محافظ گروہ گائے کے تحفظ کی آڑ میں مسلمانوں اور دلتوں پرپرتشدد حملے کر رہے ہیں ۔ صرف2010اور 2017کے درمیان گائے سے متعلق 63 حملوں کے نتیجے میں 28افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے 24 مسلمان تھے۔ ان حملوں کی وجہ سےمسلم دشمن تشدد میں اضافہ ہوااور ملک کے اندر تقسیم کو مزید تقویت ملی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی مسلمان تاجروں کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور گائے کے تحفظ کے قوانین کو اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ابھی ایک روز قبل کی واردات ہے کہ بی جے پی کے زیر اقتداربھارتی ریاست ہریانہ میں نام نہاد گائو رکشکوں (گائے کے محافظوں) نے اپنے ہی ہم مذہب ایک مویشی ٹرانسپورٹر کو اغوا کرکے پیٹ پیٹ کر بے رحمی سے قتل اور دوسرے کو زخمی کردیا۔ یہ واقعہ ضلع پلوال میں پیش آیا۔ ہلاک اورزخمی ہونے والوںکی شناخت سندیپ اور بال کشن کے طور پر ہوئی ہے جو قانونی طریقے سے مویشیوں کو لے جا رہے تھے۔نام نہاد گائو رکشکوں نے انہیں بے رحمی سے ماراپیٹا اور نہر میں پھینک دیا۔ ٹرک ڈرائیور بال کشن نے بڑی مشکل سے نہر سے نکل کر اپنی جان بچائی۔ سندیپ کی لاش بعد میں نہر سے برآمد ہوئی۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین کو چاقو کے کئی زخم آئے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ متاثرین مویشیوں کو راجستھان کے علاقے سری گنگا نگر سے لکھنو لے جا رہے تھے لیکن وہ ہریانہ میں راستہ بھول گئے ۔ہریانہ میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں متاثرین غیر مسلم نکلے۔ اس سے قبل گزشتہ سال اگست میں گا ئو رکشکوں کے ایک گروپ نے فرید آباد میں بارہویں جماعت کے ایک طالب علم آرین مشرا کا کار میں پیچھا کیا تھا اور اسے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔تماشہ دیکھیں ایک جانب صرف گائے فروخت کرنے یا اسے ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر قتل کرنے پر بھی پرچہ نہیں  ہوتا اور دوسری جانب صرف اذان دینے پر پرچہ ہی نہیں گرفتاری تک کرلی جاتی ہے ۔ تازہ ترہین واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش میں ایک روز قبل پیش آیا جہاںپولیس نے عصر کی نماز کے دوران بغیر اجازت لائوڈ اسپیکر استعمال کرنے پر امام مسجد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔کے ایم ایس کے مطابق جہان آباد کے علاقے ملاوان میں کازیٹولہ مسجد کے مولوی اشفاق پر امن عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حکام نے الزام لگایا کہ لائوڈ اسپیکر سے بورڈ کے امتحانات میں خلل پیدا ہوئی اورمریضوں سمیت قریبی رہائشیوں کو پریشانی ہوئی۔سرکاری احکامات کی نافرمانی اور عوام کو پریشان کرنے سے متعلق دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔نام نہاد صوتی آلودگی کے ضوابط کو نافذ کرنے کی کوشش کے طور پر مذہبی مقامات پر بغیر اجازت کے لائوڈ سپیکر لگانے پر تین دیگر افرادکے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اس سے قبل الہ آباد اور ممبئی ہائی کورٹس سمیت عدالتوں نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ لائوڈ اسپیکر مذہبی عمل کے لیے ضروری نہیں ہیں اور عوامی انتشار کو روکنے کے لیے اسے باقاعدہ بنایا جا سکتا ہے۔بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کو دبانے اور ہراساں کرنے کے لئے اکثر وبیشتر اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔اسی روز کا واقعہ ایک اور پیش خدمت ہے جو مودی کی منافقت کو آشکار کرنے کو کافی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف اپنی ذہرافشانی کیلئے مشہور متنازعہ ہندو پجاری یتی نرسنگھ نندنے ایک بار پھر ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلاتے ہوئے مسلح ہونے کی ترغیب دی ہے ۔ اتر پردیش کے شہر غازی آباد کے علاقے ڈاسنا میں واقع اپنے مندر سے ایک ویڈیو پیغام میں ہندوتواپجاری یتی نرسنگھ نند نے اکثریتی ہندو برادری پرمسلمانوں کے خلاف مسلح ہونے اور بھارت میں داعش جیسا دہشت گرد گروپ بنانے پرزوردیاہے ۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں یتی نرسنگھ نند کو اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جس میں وہ یوگی آدتیہ ناتھ سے ہتھیاروں کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔ہندو پجاری نے کہا کہ ہندوئوں کو اپنے مذہب، خاندان اور خود کو تحفظ کے لیے مسلح ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ اگر ضرورت ہو تو ہندوئوں کو داعش کی طرح کی تنظیم بنانی چاہیے ۔ہندو پجاری نے کہا کہ ہندوئوں کے حالات تب تک نہیں بدلیں گے جب تک وہ اپنے دفاع میں ہتھیار نہیں اٹھاتے۔اتر پردیش پولیس اور پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کو ٹیگ کرتے ہوئے، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر شوکت علی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں سوال کیاہے کہ پولیس مسلمانوں کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کے باوجودہندو پجاری کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ متنازعہ ہندو پجاری مسلسل ہندو برادری کو مسلمانوں کے خلاف اکسارہا ہے، انہیں ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دے رہا ہے، داعش جیسی دہشت گرد تنظیم بنانے کی بات کرتا ہے، پھر بھی پولیس اس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی ؟ کیا پولیس اس کے خلاف کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہے؟ماضی میں بھی یتی نرسنگھانند کے اسلام مخالف توہین آمیز بیانات پر بھارت کئی علاقوںمیں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں ۔بقول اکبر الٰہ آبادی
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے خلاف گائے کے تحفظ کر رہی ہے بی جے پی تحفظ کے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

’نسل پرستانہ چَیٹ‘، جرمن پولیس افسران کے خلاف تحقیقات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 مارچ 2025ء) جرمنی کی ایک ہی شہر پر مشتمل ریاست ہیمبرگ میں پولیس نے منگل چار مارچ کو نو مختلف اپارٹمنٹس کی تلاشی لی۔ یہ کارروائی مبینہ آن لائن نسل پرستانہ گروپ چیٹس کے سلسلے میں تحقیقات کا حصہ تھی، جس میں 15 سابق اور موجودہ پولیس افسران شامل ہیں۔

جرمن پولیس سے نسل پرستی اورامتیازی سلوک کے سدباب کی کوششیں

ایک تہائی جرمن پولیس اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی نسل پسندانہ کلمات سنے، سروے نتائج

تحقیقات کا آغاز دو افسران کے مبینہ طور پر ایسے پیغامات بھیجنے اور موصول کرنے کے بعد ہوا، جو ''نسل پرستانہ‘‘ اور ''تشدد اور نازی ازم کی تعریف‘‘ پر مبنی تھے۔

ان تحقیقات کے بارے میں اب تک کی معلومات

پولیس نے تلاشی کے دوران الیکٹرانک آلات کی ایک بڑی تعداد قبضے میں لی۔

(جاری ہے)

پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں شامل 13 دیگر افسران نے بھی ان ''چَیٹس میں مختلف حد تک حصہ لیا۔‘‘

ریاستی استغاثہ نے مبینہ طور پر ہزارہا چیٹ میسیجز کی بطور غیر مجرمانہ افعال زمرہ بندی کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ تحقیقات پولیس کی اندرونی تحقیقات ہیں اور ان کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ متعلقہ افسران کے خلاف تادیبی اقدامات کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

ہیمبرگ کے پولیس سربراہ فالک شنابل کے مطابق پولیس فورس میں اس طرح کے رویے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم ان الزامات کی مکمل تحقیقات کریں گے اور تمام ضروری تادیبی ایکشن لیں گے۔‘‘

ا ب ا/م ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

متعلقہ مضامین

  • ہندو برادری کے سینیٹر کی رمضان میں ناجائز منافع خوری کرنے والے مسلمانوں کو غیرت دلانے کی کوشش
  • اتراکھنڈ کے ضلع دہرادون میں مدارس اور مساجد بند کرنے کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج
  • ’نسل پرستانہ چَیٹ‘، جرمن پولیس افسران کے خلاف تحقیقات
  • لاہور: مبینہ طور پر زیادتی کی غلط معلومات فراہم کرنے پر 3 خواتین کیخلاف مقدمہ درج
  • بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی اور جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ
  • بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا کسی صورت گالی نہیں، انڈین سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا
  • بھارتی مسلمانوں کو 'پاکستانی' کہنا جرم نہیں، انڈین سپریم کورٹ 
  • اترپردیش کے بجٹ میں "گائے" اور "مذہبی سیاحت" ترجیحات میں شامل
  • جہاں رات کو بھی سورج نکلتا ہے اور مسلمان روزے رکھتے ہیں