برطانیہ میں ماہ رمضان اور مسلمان
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
مسلمانوں کی کوشش ہے کہ حکومت برطانیہ عیدالفطر اور عید الاضحی پر سرکاری طور پر کرسمس کی طرح چھٹیوں کا اعلان کرے لیکن شائد یہ منزل دور ہے برطانیہ کی جیلوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی 12 ہزار مسلمان قیدی ہونگے ان قیدیوں کیلئے جیلوں میں باجماعت نماز جمعہ کیلئے ایک سرکاری طور پر امام تعینات ہوتا ہے جیلوں میں پانچ وقت نماز پڑھنے پڑھانے کا بندوبست بھی ہے کسی قسم کی عبادات پر کوئی قدغن نہیں۔ رمضان المبارک میں جیل حکام کی جانب سے سحری اور افطاری کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ متعین امام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام انتظامات مسلمان قیدیوں کے جذبات ، عقائد کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے کریں۔ پانچ وقت کی نماز، تراویح اور جمعہ کی نماز کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے بعض مسلمان قیدیوں کو عید کے روز ایک دن کی چھٹی بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ عید گزار سکیں۔
یاد رہے کہ یہاں قیدیوں کو جیب خرچ بھی ملتا ہے جیل میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں ۔امیگرنٹس کو انگریزی بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی سزا کاٹ کر معاشرے میں دوبارہ با عزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں ۔بعض قیدی تو جیل میں جاکر بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں اور دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں جبکہ جیل میں کسی قسم کی زور زبردستی نہیں ہوتی ۔ کسی پر بھی اس طرح کی سختی یا نرمی نہیں برتی جاتی جس طرح ہمارے ملکوں میں ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے 25 سالوں میں تقریباً20 ہزار افراد یوکے اور یورپ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پاکستانی و کشمیری مسلمانوں کا جینا اور مرنا اب یہاں ہی کاہوکر رہ گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی سفیر بھی ہماری یہی نئی نسل ہے جو والدین کی مادری زبانوں کلچر سے تھوڑی آشنا بھی ہے۔
پاکستان سے آنے والے مذہبی اور روحانی قافلوں نے بھی یہاں اپنے اپنے کیمپ قائم کرلئے ہیں جو اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے عقیدے اور جماعت کا پرچار کر رہے ہیں یہ ایک طرح کی مسلمانوں میں تقسیم اور بگاڑ کا سبب ہے۔۔
آج کی نوجوان نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے ہر مسئلے پر قرآن و حدیث کی رو سے ثبوت مانگتی ہے وہ بھی انگریزی زبان میں ۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاکستان اور آزاد کشمیر سے آنے والے علمائے کرام اردو میں خطاب کررہے ہوتے ہیں جو نوجوان نسل زیادہ نہیں سمجھ سکتی اسی لیے پرانی پیڑی اور نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ بڑھ رہا ہے۔ والدین کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور نوجوان کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں جہاں عربی اور انگریزی بولی جاتی ہے اور جمعہ کے خطبے کو کرنٹ افیئرز سے بھی جوڑا جاتا ہے اسی طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے والدین اور اولادوں کی دو مختلف دنوں میں عیدیں ہوتی ہیں آپ کا عقیدہ درست بھلے کیوں نہ ہو جب آپ اس زبان میں بیان نہیں کرسکتے جو اس ملک کی زبان ہے تو پھر الزام آپ ہی کو جائے گا اس سال بھی مسلمانوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کرکے دو مختلف دنوں میں روزہ رکھا عید بھی الگ الگ ہوگی علمائے کرام نے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنا رکھی ہیں لیکن کب تک ؟
پاکستانی اور کشمیریوں کے زیر انتظام مساجد میں ایک بڑا مسئلہ مساجد کمیٹیوں میں نوجوانوں کو شامل نہ کرنے کا بھی اگر نوجوانوں کو مساجد کا انتظام و انصرام سنبھالنے دیا جائے تو مستقبل کے لئے اچھا ہے مسلمانوں کے قائم کردہ یہاں رفاعی ادارے فنڈ ریزنگ کیلئے تمام حربے استعمال کرتے ہیں سب ٹی وی چینلز افطاری سے لے کر سحری تک لائیو فنڈ ریزنگ کرتے ہیں نجانے کتنے ملین پونڈز اور یورو اکٹھے ہوتے ہیں۔ اللہ کے نام پر دینے والوں کی چیریٹی عطیات تو اللہ قبول کرلیتا ہے لیکن ان چیریٹی اداروں پر اعتراضات بھی اکثر ہوتے ہیں کبھی کبھی سوچتا ہوں جتنا رمضان میں غریبوں یتیموں کے نام پر پیسہ اکٹھا ہوتا ہے اگر سب غریبوں، یتیموں، ناداروں اور مسکینوں پر خرچ ہو تو مسلمان ممالک میں ایک بھی غریب نہ رہے
برطانوی مسلمانوں کو اپنی نوجوان نسل کو باہم اکٹھا کرنے کی ترکیب سوچناہوگئی اور باہم فروعی اختلافات بھولنے ہونگے تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آگئے بڑھ سکیں اور آپس میں ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا جاسکے۔یہاں بھی فرقہ بندی ہے لیکن لڑائی کوئی نہیں کر سکتا چونکہ قانون سخت ہیں اور زیادتی کرنے والا ججوں کی سزا سے بچ نہیں سکتا یہاں مسلمانوں کے لئے مسائل ہیں اسلام و فوبیا ہے نسلی تعصب بھی ہے لیکن قانون سب کے یکساں ہے مسلمانوں نے خود مل جل حالات بہتر کرنے ہیں آخر میں آئیے دعا کریں ان تمام مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں کے لئے لیے جنہوں نے سخت محنت مزدوری کرکے اس ملک میں مساجد تعمیر کیں جس کی وجہ سے اسلام کا احیا آج ممکن ہوا اور مسلمان شاہی مہمان نوازی میں افطاری کے قابل ہوئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں
پڑھیں:
وکٹیں گرنے کے باعث آسٹریلیا 280 یا 290 رنز نہیں بنا سکا
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے ساتھ ہوا یہ ہے کہ اس کی پارٹنر شپس لگی ہیں، لگ رہا تھا کہ وہ 280 یا 290 اسکور بنا لے گی لیکن جیسے ہی تیز کھیلنے کی کوشش کی وہاں ان کی وکٹ گر جاتی تھی اور یہ اسکور نہیں بن سکا.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بہرحال میچ دلچسپ ہے، پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ انڈیا ہار جائے اور فائنل لاہور میں ہو جائے.
مزید پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی: بھارت آسٹریلیا کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گیا
تجزیہ کار زاہد مقصود نے کہاکہ جب سے یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا ہے بہت سی چیزیں انڈیا کے فیور میں جا رہی ہیں، انڈین ٹیم نے دبئی میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے، انھوں نے نہ ٹریول کیا نہ مختلف کنڈیشنز میں کھیلے، وہیں پر پریکٹس کر رہے ہیں، وہیں پر سیمی فائنل کھیل رہے ہیں، انڈین ٹیم کو اس کا ایڈوانٹیج حاصل ہے، آسٹریلین ٹیم سیمی فائنل میں اپنے پانچ مین کھلاڑیوں سے محروم ہے ان کا مین اٹیک ہی نہیں ہے.
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عامر سہیل نے کہاکہ میرے خیال میں آسٹریلیا نے بھی پاکستان والی غلطی کی، ایک وقت وہ زیادہ محنت کیے بغیر290 کے قریب آرام سے پہنچ رہا تھا جیسے ہی اسمتھ آؤٹ ہوا وہ میرے خیال میں 300 سے زیادہ رنز کا سوچنا شروع ہو گئے چونکہ انڈین بیٹنگ لائن اپ کا پریشر ہے.
مزید پڑھیں: بھارت کی اہم شخصیت چیمپئنز ٹرافی کا سیمی فائنل دیکھنے کے لیے پاکستان پہنچ گئی
تجزیہ کار سلیم خالق نے کہا کہ مجھے ٹف مقابلہ تو لگ رہا ہے لیکن مجھے تھوڑا سا یہ بھی لگ رہا ہے کہ قسمت آسڑیلیا کا ساتھ دے رہی ہے، ایک دم ڈرامائی تبدیلی آسکتی ہے ان کو بہت زیادہ چانس ملے ہیں، اسمتھ کے ساتھ ایسا بھی ہواکہ وہ بولڈ ہو گئے لیکن بیلز نہیں گریں، کوہلی ابھی تک کھیل رہا ہے.
تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ نے کہا کہ انڈیا کو 265 رنزکاجو ٹارگٹ ملا ہے اس کے ابھی تک تو دو ہی کھلاڑی آؤٹ ہوئے ہیں، کوہلی ایسا کھلاڑی ہے جو ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرا سکتا ہے، آسڑیلیا کی باؤلنگ میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ مضبوط نہیں ہے اگرچہ انھوں نے شروع میں 2 وکٹیں حاصل کر لی ہیں لیکن اس کے باوجود کوہلی ایک ایسا کھلاڑی ہے جو کھڑا رہا تو فتح دلوا سکتا ہے۔