اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مارچ 2025ء) بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر برطانیہ کے دورے پر ہیں، جہاں بدھ کے روز لندن میں ایک مباحثے کے دوران ایک پاکستانی صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ کیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی دوستی کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اس پر بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر میں فریق ثالث کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق نئی دہلی کے اقدامات اور نقطہ نظر کا دفاع کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے آزادانہ طور پر فیصلہ کن اقدامات پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے مزید کیا کہا؟

صحافی نے سوال کے دوران "کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے" کا بھی ذکر کیا تھا اور کہا کہ اسی لیے "کشمیری ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں" اور یہ کہ "بھارت نے 70 لاکھ کشمیریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تقریبا 10 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔

(جاری ہے)

"

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر زیادہ ترقی یافتہ لیکن چین کے سبب، عمر عبداللہ

اس کے جواب میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا، "ہم نے کشمیر میں اس میں سے زیادہ مسائل کو حل کرنے میں ایک اچھا کام کیا ہے۔ میرے خیال میں آرٹیکل 370 کو ہٹانا ایک اہم قدم تھا۔ پھر اس کے بعد کشمیر میں ترقی، اقتصادی سرگرمیاں اور سماجی انصاف کی بحالی کا دوسرا مرحلہ تھا۔

انتخابات کا انعقاد، جس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا، اس کا تیسرا مرحلہ تھا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کا حل نہ ہونے والا پہلو بھارت کے کنٹرول سے باہر ہے۔ "مجھے لگتا ہے کہ ہم جس حصے کا انتظار کر رہے ہیں، وہ کشمیر کے چوری شدہ حصے کی واپسی ہے، جو غیر قانونی طور پر پاکستان کے قبضے میں ہے۔ جب یہ واپس ہو جائے گا، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

"

کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟

اس کے بعد بحث کا رخ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے ساتھ بھارتی تعلقات کی طرف ہو گیا، جس کے بارے میں جے شنکر کا کہنا تھا کہ کثیر قطبی دنیا کی طرف واشنگٹن کی تبدیلی بھارت کے مفادات سے ہم آہنگ ہے۔

کشمیر میں خوف سے 'زبردستی کا امن' ہے

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ خود ہی کشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے موقف کو اکثر مسترد کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کشمیر میں معمول کی صورتحال فطری نہیں بلکہ جبری ہے۔

چند روز قبل ہی کی بات ہے نئی دہلی میں ایک بحث کے دوران وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے برسوں بعد بھی سکیورٹی کی صورتحال معمول سے کہیں زیادہ دور ہے۔

جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن

انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے یہ محض دعوے ہیں کہ مرکز کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں سب کچھ بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں امن فطری نہیں بلکہ طاقت کے زور پر ہے۔

عمر عبداللہ نے 27 فروری کو نئی دہلی میں ریڈ مائیک ڈائیلاگ کے دوران کہا، "جموں اور کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اگر وہ فطری ہے، تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، تاہم اگر یہ خوف کی وجہ سے ہے، تو پھر ایک مسئلہ ہے۔" وہ جموں و کشمیر میں ہڑتالوں، علیحدگی پسندی اور عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں حالیہ کمی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔

کشمیر: بم دھماکے میں کپتان سمیت دو بھارتی فوجی ہلاک

اس سے چند روز قبل ہی بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ "جموں و کشمیر میں امن ہے، اور یہ امن مستقل رہنا چاہیے۔"

اس پر عبداللہ نے کہا، "چونکہ آپ صرف ایک محدود وقت تک ہی خوف کے ذریعے کسی صورت حال کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔۔۔۔ اگر (مرکزی حکومت) کو یقین ہوتا کہ یہ (امن) فطری ہے، تو وہ سری نگر کی جامع مسجد کو بند نہ کرتے اور میر واعظ کو اپنے خسر کی نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دیتے۔

"

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ

انہوں نے مزید کہا، "وجہ یہ ہے کہ انہیں خوف تھا کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے گی۔ امن و امان کی صورتحال اسی وقت پھوٹ پڑتی ہے، جب حالات فطری طور پر معمول کے مطابق نہیں ہوتے۔ جب نارملسی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تبھی تو یہ پھوٹ پڑتا ہے۔ اور اسی لیے جموں و کشمیر میں آپ جو کچھ بھی دیکھ رہے، وہ ایک جبری نارملسی ہے۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارتی وزیر خارجہ کے زیر انتظام عمر عبداللہ کی صورتحال کے دوران بھارت کے میں ایک کے لیے نے کہا تھا کہ

پڑھیں:

ثقلین مشتاق کا بھارتی کرکٹ ٹیم کو بڑا چیلنج

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ثقلین مشتاق نے بھارتی کرکٹ ٹیم کو بڑا چیلنج دے دیا۔

رپورٹ کے مطابق ثقلین مشتاق کی جانب سے چیلنج دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگر بھارتی ٹیم خود کو واقعی ایک بہترین ٹیم سمجھتی ہے تو پاکستان کے خلاف 10 ٹیسٹ، 10 ون ڈے اور 10 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے۔

ثقلین مشتاق کا کہنا تھا کہ اگر ہم سیاست کو ایک طرف رکھیں تو بھارتی کھلاڑی بہت اچھے ہیں اور وہ اس وقت شاندار کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ پاکستان کرکٹ حالیہ برسوں میں کپتانی، سلیکشن کمیٹی، مینجمنٹ اور پی سی بی کے عہدیداروں میں مسلسل تبدیلیوں کے باعث متعدد مسائل کا شکار ہے۔سابق پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر کا مزید کہنا تھا کہ بہترین تیاری ہو تو پاکستانی ٹیم بھارت سمیت دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتی ہے۔

ثقلین مشتاق کے اس چیلنج کے بعد سوشل میڈیا پر شائقین کے درمیان نئی بحث چھیڑ گئی ہے۔ پاک بھارت کرکٹ ہمیشہ سے ہی سب سے زیادہ جوش و جذبے سے بھرپور رہی ہے، مگر حالیہ برسوں میں دونوں ٹیموں کی کارکردگی میں واضح فرق نظر آ رہا ہے۔خیال رہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے گروپ اسٹیج میں ہونے والے مقابلے میں بھارت نے پاکستان کو یکطرفہ انداز میں شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • اگر پاکستان "آزاد کشمیر" خالی کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائیگا، ایس جے شنکر
  • دنیا جنوبی ایشیا میں امن چاہتی ہے تو کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانا ہو گا، بیرسٹر سلطان
  • گرفتار دہشتگرد کی پاکستان کو اطلاع ٹرمپ انتظامیہ نے دی تھی، امریکی وزیر دفاع
  • اقوام متحدہ کی بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش
  • سونا اسمگلنگ کا شبہ: بھارتی اداکارہ دبئی سے واپسی پر گرفتار
  • بھارتی اداکارہ سونا اسمگلنگ کے شبہے میں دبئی سے واپسی پر بنگلور ایئرپورٹ پر گرفتار
  • جنگ بندی کیلئے غزہ کا مکمل غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی قیدیوں کی واپسی لازمی شرط ہے، صیہونی وزیر خارجہ
  • کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟
  • اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھارت کو جواب دہ ٹھہرانے
  • ثقلین مشتاق کا بھارتی کرکٹ ٹیم کو بڑا چیلنج