یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکا سے براہ راست مذاکرات، حماس نے تصدیق کر دی
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
غزہ: فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے تصدیق کی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکا سے براہ راست مذاکرات کیے گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ایک حماس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذاکرات میں ایک امریکی ایلچی نے حصہ لیا اور خاص طور پر امریکی شہریت رکھنے والے اسرائیلی قیدیوں پر بات چیت ہوئی۔
ایک دیگر سینئر حماس عہدیدار نے تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں دوحہ میں امریکا اور حماس کے درمیان دو براہ راست ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔
اس سے قبل، امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ امریکی حکومت نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس سے خفیہ رابطہ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے بعد میں تصدیق کی کہ ایک امریکی ایلچی نے یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانے کے لیے حماس سے براہ راست بات چیت کی۔
امریکی میڈیا کے مطابق، یہ ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے کیونکہ امریکا نے اس سے قبل کبھی حماس سے براہ راست بات چیت نہیں کی تھی۔ امریکا نے 1997 میں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن حالیہ مذاکرات میں طویل المدتی جنگ بندی کے امکانات پر بھی گفتگو ہوئی، تاہم کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے قبضے میں اب بھی 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 35 ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 22 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، ان میں 5 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ادھر، غزہ میں جنگ بندی کا 42 روزہ پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ختم ہو چکا ہے، اور فریقین اس میں توسیع پر متفق نہیں ہو سکے، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی تمام انسانی امداد روک دی ہے، جس سے قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی رہائی سے براہ راست کے لیے
پڑھیں:
امریکا اسرائیل کی مدد سے حماس کو مکمل تباہ کر دے گا، ٹرمپ
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ٹرمپ نے ایک بیان میں لکھا کہ تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کرو اور جن لوگوں کو قتل کیا، ان کی لاشیں واپس کرو، ورنہ تمہارا خاتمہ یقینی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر گروپ کے رہنما غزہ نہیں چھوڑتے اور باقی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جاتا تو امریکا اسرائیل کی مدد سے حماس کو مکمل تباہ کر دے گا۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک بیان میں لکھا کہ تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کرو اور جن لوگوں کو قتل کیا، ان کی لاشیں واپس کرو، ورنہ تمہارا خاتمہ یقینی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بیان چھ سابق یرغمالیوں سے ملاقات کے بعد دیا، جنہیں حالیہ جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اسرائیل کو اس مشن کو مکمل کرنے کے لیے ہر چیز فراہم کر رہا ہوں، اگر تم نے میری بات نہ مانی تو حماس کا کوئی بھی رکن محفوظ نہیں رہے گا۔ انہوں نے اپنے بیان کو حماس کے لیے آخری وارننگ قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے دروازے بند ہو جائیں گے اور جہنم کے دروازے کھل جائیں گے۔
یہ دھمکیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان ابتدائی جنگ بندی ختم ہو چکی ہے۔ امریکا نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی پر مبنی معاہدے کو بڑھائے، جبکہ حماس جنگ کے بعد غزہ کے انتظامی معاملات پر بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل نے غزہ میں امداد کی ترسیل روک دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر حماس امریکی تجاویز کو قبول نہ کرے تو اسے اضافی نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اسرائیل کے اس اقدام پر بین الاقوامی سطح پر تنقید ہو رہی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انسانی امداد کو جنگ بندی سے جوڑنا یا سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا قابل قبول نہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکا اور حماس کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے کہا کہ صدر کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر مذاکرات اور رابطے کرنا امریکی عوام کے بہترین مفاد میں ہیں۔
یہ مذاکرات 1997 میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد پہلا براہ راست رابطہ تصور کیے جا رہے ہیں۔ غزہ کے بعد کے انتظامی معاملات پر بھی فیصلہ ہونا باقی ہے، تاہم ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ امریکا غزہ پر قبضہ کر کے وہاں دوبارہ تعمیر کرے اور مقامی آبادی کو بے دخل کر دے۔ ناقدین نے اس تجویز کو نسلی تطہیر قرار دیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق، اس وقت غزہ میں 24 یرغمالی زندہ ہیں، جن میں ایک امریکی شہری ایڈن الیگزینڈر بھی شامل ہے، جبکہ 35 دیگر افراد کی باقیات بھی وہاں موجود ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی حکام کے یہ سخت بیانات اس وقت سامنے آئے جب حماس نے اسرائیل کو بعض لاشیں واپس کیں، جن کے بارے میں اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ انہیں غلط طور پر شیری بیباس کی لاش قرار دیا گیا تھا۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ ایک اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئیں۔