اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بتائیں کہ شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں پیش کردی گئیں،سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کی معروضات میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہئے،آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ہے،آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیرآئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاک افغان  سرحد سے گرفتار دہشتگردوں کے حیران کن انکشافات 

لاہور بار ایسوسی اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان کے دلائل دیئے،حامد خان نے دلائل کے آغاز میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے،شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟حامد خان نے کہاکہ آرمی ایکٹ مئی 1952میں آیا ، اس سے قبل پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا،پاکستان میں پہلا آئین 1956 میں آیا جس میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے،بانی پی ٹی آئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیاگیا، جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بتائیں کہ شہریوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟

ملک میں موسم سرد رہنے اور تیز ہوائیں چلنے کا امکان  

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: حامد خان سے مکالمہ جسٹس جمال مندوخیل سپریم کورٹ

پڑھیں:

جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہئے،ٹرائل یہاں ہو یا وہاں، کیا فرق پڑتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل 

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہئے،ٹرائل یہاں ہو یا وہاں، کیا فرق پڑتا ہے،سارے فورم موجود اور قابل احترام ہیں۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیلوں پر سماعت  ہوئی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ سے کتنے لوگ رہا ہوئے؟وکیل فیصل صدیقی نے کہاکہ کل 105ملزمان تھے، جن میں سے 20رہا ہوئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجموعی طور پر 39ملزم رہا ہوئے، جیلوں میں 66ملزمان ہیں،فیصل صدیقی نے کہاکہ یہ کہتے ہیں کورٹ مارشل کرنا ہے اس کا بھی متبادل ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہئے،ٹرائل یہاں ہو یا وہاں، کیا فرق پڑتا ہے،سارے فورم موجود اور قابل احترام ہیں۔سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی  نے دلائل مکمل ہو گئے۔

بانی سے پارٹی رہنماؤں کی ملاقات نہ کرانے کیخلاف درخواست قابل سماعت قرار

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اگر ملٹری کورٹس کیلئے آئینی ترامیم آ جائے تو آپ کا موقف کیاہوگا،جسٹس جمال مندوخیل  کا حامد خان سے مکالمہ 
  • کیا 1951میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جسٹس جمال مندوخیل کا حامد خان سے استفسار
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل: راولپنڈی سازش کیس میں ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوا، وکیل حامد خان کے دلائل جاری
  • ملٹری ٹرائل کیس، آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا: سپریم کورٹ بار
  • آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس مظاہر، قانون میں ملٹری کورٹ نہیں، کورٹ مارشل: جسٹس مندوخیل
  • سزا تو ہونی چاہیے، سویلینز کا ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ملٹری کورٹس کیس؛ ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • ٹرائل یہاں ہو یا ملٹری کورٹ میں، کیا فرق پڑتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہئے،ٹرائل یہاں ہو یا وہاں، کیا فرق پڑتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل