WE News:
2025-03-06@09:25:39 GMT

مہذب اقوام کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

ایک زمانہ وہ تھا جب یورپ اپنی کوئی پہچان رکھتا تھا، تب وہاں ایسے ادوار آئے جب مختلف سلطنتوں نے اس براعظم پر راج کیا اور اپنی طاقت کا لطف لیا۔ ان میں سے کچھ سلطنتیں ایسی بھی رہیں جو یورپ سے باہر تک پھیلاؤ حاصل کرگئیں۔ اس پورے عرصے میں یورپ کی اپنی پہچان اور خود مختاری تو تھی، مگر اس کی ایک شناخت اور بھی تھی، یہ باہم دست و گریباں براعظم بھی تھا۔ دوسری جنگ عظیم اس کی آخری بڑی مثال تھی، اس جنگ نے پورے یورپ کو ہی اتنا بدحال کردیا کہ ان کے لیے اپنے دم پر واپس اپنے قدموں پر کھڑے ہونا لگ بھگ محال نظر آتا تھا۔

ان کی اس بدحالی کا امریکا نے دو طرح سے فائدہ اٹھایا۔ ایک تو امیگریشن کا چارہ استعمال کرکے یورپ سے بڑی سطح کا برین ڈرین کرادیا۔ جس سے امریکا کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی اسپیڈ حاصل کرنا ممکن ہوگیا جو دوسری جنگ عظیم سے فقط پرل ہاربر کی حد تک ہی متاثر ہوا تھا۔ یورپ کی بدحالی کا دوسرا فائدہ امریکا نے یہ حاصل کیا کہ مارشل پلان کے ذریعے اس نے گویا یورپ کو خرید ہی ڈالا اور وہ بھی ممنون بنا کر۔ یوں وجود میں آیا وہ یورپ جہاں اب کوئی سلطنت تھی اور نہ ہی کوئی قومی خود مختاری، مشرقی یورپ سوویت تسلط میں چلا گیا تو مغربی یورپ نے امریکی ڈنڈے کی اطاعت قبول کرلی۔ سوویت زوال کے بعد مشرقی یورپ کی بھی بیشتر ریاستوں نے بھی امریکی ڈنڈے کو بوسہ اطاعت دے ڈالا۔

لگ بھگ 80 برس کا یہ عرصہ ایسا ہے جس میں یورپ باہم دست و گریباں نظر نہیں آتا، ان کی باہمی نفرت وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی مگر نوبت کسی جنگ تک نہ جاسکی، کیونکہ امریکا نے انہیں یورپین یونین اور نیٹو کی مشترکہ چھت فراہم کرکے مفادات کے نقطہ نظر سے باہم جوڑ دیا تھا۔

سال 2025 کے بس پہلے ہی 20 دن یورپ سکون سے گزار پایا ہے، اس کے بعد کا ڈیڑھ ماہ یورپ کے لیے ایک ایسے ڈراؤنے خواب جیسا ہے جس سے یہ اب بھی ہڑبڑاہٹ کی حالت میں ہیں۔ واقعات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ابھی یورپ یہی طے نہ کرپایا تھا کہ وہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس کا ملبہ سمیٹنے کے لیے کیا کرے؟ کہ وائٹ ہاؤس میں پہلے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور اس سے اگلے روز یوکرینی کامیڈین زیلینسکی کی طبیعت ٹرمپ نے صاف کرڈالی۔ زیلینسکی کے ساتھ جو ہوا وہ وائٹ ہاؤس کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پورے جدید عہد کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ ملکوں کے مابین صورتھال اتنی تلخ ہو جایا کرتی ہے کہ مہلک جنگ کی نوبت آجاتی ہے، مگر دشمن ممالک بھی ایک دوسرے کے سربراہوں کا وقار مجروح نہیں کرتے۔

صورتحال کو سمیٹنے کی بجائے یورپ حیرت انگیز طور پر زیلینسکی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے، انہیں لندن مدعو کرکے کمر تھپکی گئی اور یقین دلایا گیا کہ قبر میں اتارنے تک ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ذرا صورتحال کی مضحکہ خیزی دیکھیے۔ سلیکٹڈ یورپین لیڈروں کی جس میٹنگ میں زیلینسکی کی کمر تھپکی گئی اس کے اختتام پر برطانوی وزیراعظم نے ایک اعلامیہ بھی جاری فرمایا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم یوکرین کو فضائی و زمینی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی فوج یوکرین بھیجنے کو تیار ہیں، مگر ہماری شرط یہ ہے کہ ہماری اس فوج کو امریکی فوج تحفظ فراہم کرے جو یوکرین کو تحفظ فراہم کرے گی۔ آپ نے دنیا کی جدید سیاسی تاریخ میں ایسا لطیفہ پہلے کبھی سنا؟ سوال یہ ہے کہ اگر برطانیہ اتنا طاقتور ہے کہ یوکرین کو روس جیسی بڑی سپر پاور سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے تو پھر اتنا کمزور کیسے ہے کہ یوکرین کو تحفظ فراہم کرنے والی اس کی فوج کو امریکی فوج کا تحفظ درکار ہے؟

اس سوال کا جواب مغربی پوڈ کاسٹس کی دنیا میں قہقہوں سمیت دستیاب ہے۔ عسکری امور کے آزاد تجزیہ کاروں کے ہاں برطانوی فوج سے متعلق یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ برطانوی مسلح افواج میں اس وقت گھوڑوں کی تعداد توپوں سے، اور ایڈمرلز کی تعداد وارشپس سے زیادہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ برطانیہ اسی سلطنت کا نام ہے آج سے 70 سال قبل تک جس کی حدود میں سورج غروب نہ ہوتا تھا، اور جس کی نیوی چار براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا عرصہ غیر معمولی سائنسی ترقی کا دور ہے، یہی وہ دورانیہ ہے جب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کی تقسیم پولیٹکل سائنس کا حصہ بنی، اس ترقی میں برطانیہ کا حصہ کتنا ہے اس کا اندازہ آپ کو کیئراسٹارمر کے بیان سے ہو گیا ہوگا۔

حال خراب سہی مگر ماضی کے لحاظ سے برطانیہ پرشکوہ تاریخ والا ملک تو ہے، آپ ذرا اس یورپین ملک کا تکبر دیکھیے جسے نقشے پر دیکھنے کے لیے عدسے کی ضرورت پیش آئے۔ استونیا نام ہے اس کا، اس کی کل آبادی 14 لاکھ ہے، اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جو فوج بنائی گئی ہے اس کی کل تعداد 7700 ہے۔ ان میں سے بھی 3500 فوجی جبری بھرتی کے ہیں۔ اس عظیم ملک کی سابق وزیراعظم کایا کالس آج کل یورپین یونین کی خارجہ امور کی سربراہ ہیں۔ زیلینسکی والے واقعے پر اس خاتون نے ٹویٹ فرمایا وقت آگیا ہے کہ فری ورلڈ کے لیے نیا لیڈر ڈھونڈا جائے۔ یورپ کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ گویا مت اتنی ماری گئی ہے کہ خاتون یہی بھول گئیں کہ یہ وہی امریکا ہے جس نے انہیں روس سے بچانا تھا۔ اگر روس دشمن ہے، اور اپنے فری ورلڈ کے لیے آپ کو امریکا کی جگہ کوئی نیا لیڈر چاہیے تو پھر روس اور امریکا دونوں سے آپ کو کون بچائے گا؟

ہر چند کہ یورپ تاثر یہ دے رہا ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کی اسے کوئی خاص پروا نہیں، مگر ہم اسے ایسا بلف سمجھتے ہیں جسے ٹرمپ کسی بھی وقت کال کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجیے کہ کیا روس کو نیٹو کی نسبت سے امریکا سے بس یوکرین والی شکایت ہی ہے ؟ نہیں، روس کو ان میزائلوں پر بھی اعتراض ہے جو امریکا نے پولینڈ اور جرمنی سمیت کئی یورپین ممالک میں نصب کیے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ان میزائلوں کو ہٹانے کا اعلان کردیں تو یورپ کے اوسان کھڑے کھلوتے خطا ہوسکتے ہیں۔

مگر فرض کیجیے کہ دھتکارے جانے کے بعد یورپ امریکا سے الگ ہوجاتا ہے تو اس کے مستقبل کا نقشہ کیا بنے گا؟ یہ ایک بار پھر وہی یورپ ہوگا جس کی دوسری جنگ عظیم سے قبل کی پوری تاریخ باہمی جنگوں سے عبارت ہے۔ اٹلی، اسپین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، نیدرلینڈ اور ہنگری یہ سب ماضی کی وہ سلطنتیں ہیں جو اس براعظم پر ڈنڈے کے زور پر راج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ ان کے ماضی کا یہ تاریخی تکبر انہیں آج بھی چین نہیں لینے دیتا۔ یہ صرف امریکا ہے جس کی چھتری تلے یہ ایک دوسرے سے لڑے بغیر چلے ہیں۔ یہ چھتری ہٹتے ہی یہ سب ایک بار پھر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یہ ایک دوسرے سے کتنی شدید نفرت کرتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے ان کا ڈومیسٹک میڈیا دیکھ لینا کافی ہے۔ بالخصوص ان کے ایک دوسرے سے متعلق لطائف ہی سرچ کر لیجیے جو توہین، تذلیل اور تحقیر کی بدترین مثال ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکا امریکی چھتری جنگ عظیم ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی روس فرانس وی نیوز یورپ یوکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز یورپ یوکرین تحفظ فراہم یوکرین کو امریکا نے ایک دوسرے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) بھارت نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ٹرک کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور ریاست منی پور کے تعلق سے بعض بیانات پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور ان کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "غلط و بے بنیاد" قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی سطح پر اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کا نام لے کر اس کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور ریاست منی پور میں تشدد سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیا تھا۔

جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن

تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں بھارت کے مستقل نمائندے ارندم باغچی نے ان کے ایسے تبصروں پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے ریمارکس زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ نے کیا کہا؟

انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران وولکر ٹرک نے بھارت کا ذکر کیا اور اس زمرے میں جموں و کشمیر اور منی پور کی صورتحال کا حوالہ دیا۔

انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے سخت ترین قوانین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "انسانی حقوق کے محافظوں اور آزاد صحافیوں کو ہراساں کرنے لیے پابندی والے سخت قوانین کا استعمال کیا جانا قابل تشویش ہے۔ غیر قانونی نظربندیوں نے کشمیر سمیت شہری آزادیوں کو کم کیا ہے۔

"

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ

انہوں نے منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا، "میں منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے بات چیت، قیام امن اور انسانی حقوق کی بنیاد پر تیز رفتار کوششوں کا مطالبہ کرتا ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی "کوششیں مذاکرات، قیام امن اور انسانی حقوق پر مبنی" ہونی چاہئیں۔

وولکر ٹرک کا کہنا تھا کہ بھارت کی جمہوریت اور ادارے اس کی سب سے بڑی طاقت رہے ہیں، جو اس کے تنوع اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ "جمہوریت کے لیے معاشرے کے تمام سطحوں پر شرکت اور شمولیت کی مسلسل پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔"

بھارت کا سخت رد عمل

جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58 ویں اجلاس کے موقع پر بھارتی سفیر ارندم باغچی اقوام متحدہ کے ان بیانات سے برہم دکھائی دیے اور کہا کہ چونکہ اس رپورٹ میں "بھارت کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، اس لیے میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک صحت مند، متحرک اور تکثیری سماج کے طور پر جاری ہے۔

اور رپورٹ میں یہ بے بنیاد تبصرے زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔"

بھارت: کشمیری رکن پارلیمان انجینیئر رشید جیل میں بھوک ہڑتال پر

بھارتی سفیر نے اس بات کو خاص طور پر اجاگر کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف کشمیر کا نام لیا۔ باغچی نے کہا اس طرح کے بیانات ایسے وقت میں آئے ہیں، جب خطے میں امن اور ترقی میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

انہوں نے اس کے لیے کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا حوالہ دیا اور کہا کہ "خطے کی سکیورٹی بہتر ہوئی ہے، صوبائی انتخابات میں ووٹروں کی ریکارڈ تعداد رہی جبکہ سیاحت بھی عروج پر ہے اور بنیادی ڈھانچے کی تیز رفتار ترقی کے لیے بھی یہ سال نمایاں رہا ہے۔"

بھارتی سفیر نے نئی دہلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عوام نے "ہمارے بارے میں اس طرح کے غلط خدشات کو بار بار غلط ثابت کیا ہے۔

"

بھارتی بیانات علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں، پاکستان

انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق عالمی اپڈیٹ کے وسیع تر نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے "ہائی کمشنر نے ایک وسیع بے چینی محسوس کی ہے، لیکن ہم عرض کریں گے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ہائی کمشنر کو اپنے دفتر میں لگے آئینے میں ایک طویل اور سخت نظر ڈآلنے کی ضرورت ہے۔

"

اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر عالمی ادارے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق ماضی میں سوال اٹھاتے رہے ہیں، تاہم جب بھی ایسا ہوتا ہے، تو بھارتی حکومت انہیں تسلیم کرنے یا اس میں بہتری لانے کی باتیں کرنے کے بجائے حسب معمول انہیں مسترد کر دیتی ہے۔

چند روز قبل جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے خود یہ بات کہی تھی کہ کشمیر میں امن جبری ہے، اور یہ صرف سخت سکیورٹی کی وجہ سے پر امن نظر آ رہا ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت افغان دہشتگرد کو گرفتار اور امریکا کے حوالے کیا، دفتر خارجہ
  • مستقبل میں امریکا سے بات چیت میں ایرانی جوہری پروگرام شامل ہوگا، روس
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے نکلنے کا اعلان کردیا
  • عرب سربراہی اجلاس : غزہ کی تعمیر نو اور مستقبل کیلئے مصری منصوبے کو قبول کر لیا گیا
  • مصر نے غزہ کے مستقبل کیلئے نیا منصوبہ پیش کر دیا
  • پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل تاریک؟ جاوید میانداد (ڈمی) کا خصوصی انٹرویو
  • مصر کا غزہ منصوبہ، حماس کی جگہ عبوری حکومت کی تجویز
  • کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟
  • پی سی بی کے مستقبل کے فیصلوں کو سپورٹ کرنا ہوگا،وسیم اکرم