بڑھتی دہشت گردی پر ہیومن رائٹس کمیشن کو تشویش
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
لاہور:
ہیومن رائٹس کمیشن نے ملک میں بڑھتی دہشت گردی اور ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس کے مطابق خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا، بنوں حملے میں خواتین اور بچوں سمیت کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
بلوچستان میں بھی عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا، جہاں شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کراچی میں پولیس افسر کا دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے ریاست شہریوں کے تحفظ میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔
کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا اندھا دھند کریک ڈاؤن کے بجائے موثر، انٹیلی جنس اور شواہد پر مبنی حکمت عملی ترتیب دیں، انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں منصفانہ ٹرائل اور احتساب کے اصولوں کو یقینی بنایا جائے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈی آئی خان میں ہلاک دہشت گردوں کے خاندان اور قبیلے کا مرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان
فتنہ الخوراج کی دہشت گردی سے خیبرپختونخوا میں متاثرین کی ایک بڑی تعداد انتہا پسندی کو مسترد کر رہی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہلاک دہشت گردوں کے خاندان اور قبیلے نے مرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 15 اپریل 2025ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں چار خارجی ہلاک ہوئے، ہلاک دہشت گردوں میں رنازئی قبیلے سے تعلق رکھنے والا خارجی حذیفہ عرف عثمان بھی شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق خارجی دہشت گرد حذیفہ عرف عثمان کی والدہ نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ حذیفہ عرف عثمان میرا بیٹا تھا، وہ فوج کے ہاتھوں مارا گیا میرا بیٹا حذیفہ میرا اور والد کا نافرمان تھا، ہم نے حذیفہ کو بہت سمجھایا، والد نے بہت بار ڈانٹا بھی مگر اس پر ہماری بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔
فتنہ الخوراج کے خلاف خیبرپختونخوا کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جس کی واضح مثالیں حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے فتنتہ الخوراج کم عمر پاکستانی قبائلی نوجوانوں کو دہشت گردی کی آگ میں ایندھن کے طور پر دہشت گردی میں استعمال کر رہے ہیں، ہلاک دہشت گرد حذیفہ کی والدہ کا بیان فتنتہ الخوارج کی شکست ہے۔