سینئر وکیل اختر حسین نے جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ ان کے استعفیٰ سے 26 ویں ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات مزید گہرے ہوگئے۔
ادھرلاہور میں ایک بے روزگار شخص کی خود سوزی کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ وہ ایک مقامی کمپنی میں ملازم تھا۔ اسے اور چند ساتھیوں کو مزدور یونین کو متحرک کرنے پر کمپنی نے برطرف کردیا تھا مگر این آئی آر سی نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ملازمت پر بحال کیا تھا مگر کمپنی نے 5 سال سے ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا ہوا تھا۔ خود سوزی کرنے والا شخص اسپتال میں کئی دن تک زندگی کی لڑائی لڑتا رہا لیکن جانبر نہ ہوسکا اور دنیا سے رخصت ہوگیا۔
سینئر وکیل اختر حسین ایک مارکسی وادی ہیں، وہ نوجوانی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، وہ کراچی کے اسلامیہ لاء کالج کی طلبہ یونین کے عہدیدار رہے۔ انھوں نے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے کی کوششوں میں حصہ لیا۔ اختر حسین آج کل عوامی ورکرز پارٹی کے صدر ہیں۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں اسیر سیاسی کارکنوں کی داد رسی کے لیے عدالتوں میں مقدمات لڑنے شروع کیے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور نیپ کے رہنماؤں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان، علی بخش تالپور وغیرہ کو سازش کیس میں ملوث کیا جو حیدرآباد سازش کیس کے نام سے معروف ہوا تو اختر حسین صفائی کے وکلاء کے پینل میں نوجوان وکیل کے طور پر شامل تھے۔ صفائی کے وکلاء کے پینل میں محمود علی قصوری اور بیرسٹر ایس اے وجود جیسے نامور وکلاء شامل تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن طالب علم رہنما پر نذیر عباسی کو ٹارچرکیمپ میں شہید کیا گیا تو اختر حسین نے ان کی بیوہ حمیدہ گانگھرو کے وکیل کی حیثیت سے نذیر عباسی کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کی مسلسل کوشش کی۔
کراچی کی خصوصی فوجی عدالت میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی، پروفیسر جمال نقوی اور سہیل سانگی وغیرہ کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو اختر حسین نے پھر ان سیاسی اسیروں کی پیروی کا فریضہ انجام دیا۔ اختر حسین نے وکلاء کی تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1973 کے آئین کی بحالی کی تحریک میں کئی ماہ کراچی سینٹرل جیل میں مقید رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل رہے مگر جب افتخار چوہدری نے عدالتی آمریت قائم کی تو انسانی حقوق کی تحریک کی عظیم قائد عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مل کر وکلاء کا انڈیپنڈنٹ گروپ منظم کیا۔
اختر حسین پاکستان بار کونسل کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے رکن تھے اور ایک عرصے سے نمایندگی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکیا تو اس وقت اختر حسین ان وکلاء میں شامل تھے جنھوں نے اس ریفرنس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ جب سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے جونیئر ججز سپریم کورٹ میں لانے کے لیے قانون تیار کیا تو اختر حسین اس کے حق میں نہیں تھے۔ جب گزشتہ سال پارلیمنٹ نے آئین میں 26 ویں ترمیم منظورکی اور ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کمیشن میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے علاوہ بار کونسل اور سیاسی جماعتوں کی نمایندگی بڑھا دی گئی۔
جوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سینیارٹی کے بجائے Stability کا اصول اپنایا گیا اور اعلیٰ عدلیہ میں آئینی بنچ کی تشکیل کے لیے یہی اصول اختیارکیا گیا۔ وزارت قانون نے آئینی ترمیم کے بعد نئے قانون کے مطابق تین ہائی کورٹس سے سینئر ججز کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ سے آنے والے سینئرجج جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگرکو اسلام آباد ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقررکیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے اپنی سینیارٹی متاثر ہونے پر سپریم کورٹ میں عرضداشت بھی داخل کی۔
ان حالات میں اختر حسین جوڈیشل کمیشن کی رکنیت سے الگ ہوگئے۔ انھوں نے چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک صفحہ کا بھی خط تحریرکیا۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ججوں کے تقرر میں پیدا ہونے والے تنازعات کی بناء پر وہ جوڈیشل کمیشن کے رکن کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں۔ اس بناء پر انھوں نے کمیشن سے مستعفیٰ ہونے کو بہتر جانا حالانکہ اختر حسین نے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کے سب سے اجلاسوں میں شرکت کی۔
ان اجلاسوں میں سپریم کورٹ کے 7 ججوں اور ہائی کورٹس کے 36 ججوں کا تقرر عمل میں آیا۔ جب پارلیمنٹ نے 26 ویں ترمیم منظور کی تو مختلف افراد نے اس ترمیم کو عدالتوں میں چیلنج کیا تھا۔ مگر سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ان پٹیشنز کو رد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ججزکے تقرر کا عمل جاری ہے۔ ادھر پاکستان بار کونسل نے جوڈیشنل کمیشن کے لیے اپنے نئے نمایندہ سینئر وکیل احسن بھون کا انتخاب کیا ہے۔
ادھر واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کی رپورٹ کے انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کے تناظر میں پاکستان کا نمبر 3 پوائنٹ کم ہوگیا ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے 63 ممالک میں پاکستان کا منفی نمبر بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ 10برسوں میں بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں پر قدغن لگی ہے۔ اگرچہ وزیر قانون سینیٹر اعظم تارڑ نے جنیوا میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی مستحکم ہے اور ریاست عوام کے بنیادی حقوق اور سیاسی آزادیوں کا تحفظ کررہی ہے مگر عالمی ادارے کی یہ رپورٹ تلخ حقائق کا اظہار کررہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جوڈیشل کمیشن کے سپریم کورٹ کے تو اختر حسین ہائی کورٹ اور سیاسی پارٹی کے انھوں نے کیا گیا کے لیے
پڑھیں:
کراچی: بااثر شخص کا شہری پر تشدد کیس: ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیاگیا
جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ نے بوٹ بیسن پر بااثر شخص کا شہری پر تشدد کیس میں ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت کے روبرو بوٹ بیسن پر بااثر شخص کا شہری پر تشدد کیس کی سماعت ہوئی۔
5 ملزمان کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا، ملزمان میں میں جلات خان، حسین نواز، علی جان، سجاد اور دیگر شامل ہیں۔
وکیل صفائی نے موقف دیا کہ تفتیش مکمل ہوچکی ہے، لہذا انہیں جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جائے۔ جو لوگ گرفتار کیئے وہ وہاں موجود نہیں تھے، عدالت نے تمام ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
مقدمہ کا مرکزی ملزم شاہ زین مری مفرور ہے، ملزمان کیخلاف تھانہ بوٹ بیسن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
دوسری جانب ڈی آئی جی ساوتھ نے فرار ملزمان کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ کو خط لکھ دیا جس میں کہا گیاکہ خط میں بوٹ بیسن واقعہ اوراس کے نتیجے میں درج مقدمے کا ذکر ہے ، کراچی :خط میں آئی جی سندھ سے ملزمان کی گرفتاری کے لیے بلوچستان حکومت سے رابطے کی درخواست کی گئی ہے۔
خط کے متن کے مطابق برکت علی سومرو نے 19 فروری کو شاہ زین بگٹی اور دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے، مقدمے میں نامزد پانچ سیکیورٹی گارڈزکوگرفتار کیا گیا ہے، جبکہ مرکزی ملزم شاہ زین مری، غلام قادر ،تاج گل ، محمد علی بلوچستان کے شہر کوہلو فرار ہیں۔
خط میں ملزم شاہ زین مری کا رابطہ نمبر نمبر بھی دیا گیا ہے ، اس میں کہا گیا کہ ملزمان کی گرفتاری میں بلوچستان پولیس سے مدد لی جائے۔