آئی جی سندھ کا پولیس کو تھانوں اور مقدمات پر کارروائی کا ریکارڈ آن لائن کرنے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
کراچی:
انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ تھانوں اور مقدمات پر پولیس کارروائی کا مجموعی ریکارڈ کا اندراج آن لائن کر دیا جائے۔
آئی جی آفس سے جاری بیان کے مطابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیر صدارت پولیس اسٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم(پی ایس آر ایم ایس) کی کارکردگی سے متعلق جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔
بیان میں کہا گیا کہ سینٹرل پولیس آفس کراچی میں منعقدہ اجلاس میں ڈی آئی جیز،کرائم اینڈ انوسٹی گیشنز، اسٹیبلشمنٹ، ہیڈکوارٹرز، آئی ٹی، فائنانس، انوسٹی گیشن کراچی اور دیگر پولیس افسران نے شرکت کی۔
اجلاس کو ڈی آئی جی کرائم اینڈ انوسٹی گیشنز کی جانب سے پولیس اسٹیشن ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم پر مقدمات کے اندراج اور نگرانی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، پولیس اسٹیشنز میں اب دستاویزی اور ڈیجیٹل طریقہ سے مقدمات، تفتیش اور دیگر ضروری کارروائیوں کا اندراج کیا جا رہا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایک وقت میں دو جگہوں پر مقدمات کے اندراج سے غیر ضروری تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ ایف آئی آر سے لے کر مقدمات کا تمام ریکارڈ ڈیجیٹلائزڈ کیا جائے، پولیس اسٹیشن ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم پر مقدمات کے اندراج، نگرانی اور اپڈیٹ کی ذمہ داری کرائم اینڈ انوسٹی گیشنز کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کے اندراج کے دوران سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اور ذمہ داریوں سے پہلوتہی یا لاپروائی کرنے والے اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کیا جائے۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ پولیس اسٹیشن ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم سے ملنے والا ڈیٹا جرائم کی روک تھام اور وجوہات کے لیے انتہائی مفید ہے، کریمنلز کے خلاف مرتب کردہ ڈیٹا جرائم کی بیخ کنی اور باالخصوص عادی مجرمان کے خلاف اہم ہتھیار ہے۔
غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ ٹھوس ثبوت، ناقابل تردید شواہد کے طور پر کریمنلز ڈیٹا کا استعمال وقت کا تقاضا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غلام نبی میمن کے اندراج
پڑھیں:
حکومت سندھ نے 2 لاکھ سے کم آمدنی والے گھرانوں میں سولر ہوم سسٹم کی تقسیم شروع کردی
کراچی:وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے2 لاکھ کم آمدنی والے گھرانوں میں سولر ہوم سسٹم (SHS) کی تقسیم شروع کردی ہے اور چیئرمین بلاول بھٹو مزید 3 لاکھ سولر یونٹس خریدنے کی ہدایت دے چکے ہیں تاکہ انہیں کم آمدنی والے گھرانوں میں تقسیم کیا جاسکے۔
یہ بات انہوں نے سندھ سولر انرجی پروجیکٹ (SSEP) کے زیر اہتمام کے پی ٹی انٹر چینج، ڈی ایچ اے فیز -I کے قریب ایک بینکوئٹ ہال میں کم آمدنی والے گھرانوں میں سولر ہوم سسٹمز (SHS) کی تقسیم کے موقع پر کہی۔ تقریب میں وزیراعلیٰ سندھ نے سندھ حکومت کو قابل تجدید توانائی کے فروغ اور تھر کول منصوبے کی ترقی میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے شمسی توانائی کا منصوبہ شروع کیا توونڈ اور شمسی توانائی جیسے قابل تجدید ذرائع پر پابندیاں عائد کی گئیں، جس سے توانائی کے پائیدار حل میں سندھ کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس کے باوجود سندھ حکومت نے صوبے کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درآمدی کول پاور پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔
شمسی توانائی کے حوالے سے سندھ کے ابتدائی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے مرادعلی شاہ نے کہا کہ 2014 میں حکومت نے ننگرپارکر میں 600 اسکولوں کو سولرائز کیا اور سکھر میں 25 میگاواٹ کی دو سولر پاور اسکیمیں شروع کیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کوششوں کے باوجود وفاق نے اضافی بجلی کی پیداوار کے لیے منظوری دینے سے انکار کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پہلے ہی کافی بجلی موجود ہے ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر کراچی سمیت پورا سندھ لوڈ شیڈنگ کا شکار کیوں ہے؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ مسئلہ بجلی کے سرپلس کا نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے میں ناکامی کا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کےلیے سندھ حکومت گرین انرجی کے نئے ذرائع کی کھوج میں ہے مگر وفاقی حکومت نے درآمدی کوئلے پر مبنی پاور پلانٹس کو ترجیح دی اس کی واضح مثال ساہیوال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت ایسا تھا جب وفاق نے تھر کے کوئلے کو بجلی کی پیداوار کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جس سے سندھ کے توانائی کے منصوبوں میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو ئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 14-2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے تھر کول پراجیکٹ کی منظوری دی تھی لیکن وفاقی گارنٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد کے لیے قرضوں کا حصول مشکل رہا۔انہوں نے مزید کہا کہ 2016 کے منصوبے کے معاہدے کے بعد بھی تھر کول کی فزیبلٹی پر بدگمانیاں قائم رہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ ان ساری کاوشوں کا سہرا جناب صدرآصف علی زرداری کے سر ہے جنہوں نے اس منصوبے کے افتتاح کے لیے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو تھر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور وفاقی سطح پر تعاون کو یقینی بنایا گیا۔2015 میں مالی مشکلات کے باوجود سندھ حکومت نے سخت شرائط میں قرضے حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے ہمیں خبردارکیا کہ اگر پروجیکٹ ناکام ہوا تو وہ سندھ کے این ایف سی ایوارڈ سے ادائیگیوں میں کٹوتی کریں گے لیکن ہم نے پھربھی پروجیکٹ پر کام جاری رکھا۔ تھر کول کے منصوبے نے 2018 میں نتائج دینا شروع کیے جب بلاول بھٹو زرداری نے ذاتی طور پر کان کنی کے مقام کا دورہ کیا۔ تھر کے کوئلے کےپہلےمرحلے یعنی 230 میگاواٹ پاور پلانٹ کا افتتاح بلاول بھٹو زرداری نے کیا جب کہ آخری مرحلے کا افتتاح سابق وزیر داخلہ بلاول بھٹو اور وزیراعظم شہباز شریف نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں تھر کے کوئلے سے سب سے سستی بجلی پیدا کی جاتی ہے جو سندھ کے توانائی کے شعبے کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔مرادعلی شاہ نے کہا کہ وہ لوگ جو کبھی تھر کے کوئلے کے قابل عمل ہونے پر شک کرتے تھے، اب اس میں اضافے کی مانگ کر رہے ہیں۔ مزید برآں مہنگے درآمدی ایندھن کے مقابلے میں پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کے لیے تھر کے کوئلے کو استعمال کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے سندھ حکومت اب وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر تھر کے کوئلے کی نقل و حمل کے لیے ایک مخصوص ریلوے لائن بچھا رہی ہے جس سے صوبے کی توانائی کی خودمختاری کو مزید تقویت ملے گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 2022 کے سیلاب نے خطے پر اپنے واضح نقوش چھوڑے ہیں ۔ سندھ سولر پراجیکٹ توانائی میں خودکفیل ہونے کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو خاندانوں کوان کی زندگی، بچوں کے بہتر تعلیم اور کاروبار کو پھلنے پھولنے کے قابل بناتا ہے ۔ ہم ایک زیادہ لچکداراور پائیدار سندھ بنا رہے ہیں ۔ایس ایس ای پی کا جزو III اہل گھرانوں کو معمولی قیمت پر بھاری سبسڈی والی SHS کٹس فراہم کرے گا۔
ہر 6000 ویرا سول کٹ میں مضبوط سولر پینل،80W سولر پینل، اسمارٹ پاور مینجمنٹ اور ایک چارج کنٹرول یونٹ، ایک دیرپا بیٹری، ایک 18اے ایچ لیتھیم آئرن فاسفیٹ بیٹری، موثر لائٹنگ (3 ایل ای ڈی بلب)، ضروری کنیکٹیویٹی(موبائل چارجنگ فیسیلیٹی ، کولنگ کمفرٹ۔ 18 انچ ڈی سی پیڈسٹل فین اور سیکیور اسٹالیشن (سولر ماؤنٹنگ فریم) شامل ہیں۔
سندھ حکومت چینی کمپنیوں کے ساتھ ونڈ سولر ہائبرڈ انرجی کے منصوبے تیار کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے، جس میں 350 میگاواٹ اور 75 میگاواٹ کے منصوبے شامل ہیں، جنہیں صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ چین کے دوران حتمی شکل دی گئی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کم آمدنی والے خاندانوں کو 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا جوکہ پی پی پی کے منشور کا وعدہ اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ سندھ حکومت جولائی 2025 تک تمام 200,000 ایس ایچ ایس کٹس کی تقسیم کو مکمل کر نے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہر ہفتے 400 کٹس فی ضلع کا ہدف مقرر کیا گیاہے۔ ٹائم لائن کا مقصد جلد سے جلد ضرورت مند خاندانوں کی مدد کرنا ہے۔
اس موقع پر وزیر توانائی ناصر شاہ نے کہا کہ سندھ کے تمام 30 اضلاع میں ایس ایچ ایس کی تقسیم یکساں طور پر کی جا رہی ہے، جس میں ہینڈز، ایس آر ایس او اور سیفکو جیسی قائم کردہ این جی اوز کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترسیل کے عمل کو جلد سے جلد یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ڈیٹا بیس سے فائدہ اٹھانے والوں کا انتخاب احتیاط سے کیا گیا تاکہ سب سے زیادہ ضرورت مند خاندانوں کو ترجیح دی جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ اور ان کی ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کلین توانائی کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور سندھ عالمی بینک اور دیگر ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے اس تبدیلی میں ایک رہنما بننے کے لیے پرعزم ہے۔ سندھ سولر انرجی پراجیکٹ ایک سرسبز، زیادہ مساوی مستقبل کی جانب ایک اہم قدم ہے، جو معیار زندگی کو بلند کرنے اور پائیدارسندھ کی ضمانت ہے۔