جامعہ حقانیہ کے بعد بنوں چھاونی میں یکے بعد دیگرے دھماکے حکومتی ناکامی ہے، اسداللہ بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
یک بیان میں ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر نے کہا کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی آمرانہ اقدامات اس شدت میں مزید اضافہ کررہے ہیں، سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور دہشتگردی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر و سابق ایم این اے اسداللہ بھٹو نے بنوں بم دھماکہ کے مذمت اور قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے چند دن ہی بعد بنوں چھاونی میں یکے بعد دیگرے دھماکے حکومتی ناکامی ہے، سیکیورٹی اداروں کو چاہیئے کہ وہ سیاست میں مداخلت کی بجائے ملکی سالمیت اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ انہوں نے آج ایک بیان میں کہا کہ کے پی اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہے اور عملی طور ان دونوں صوبہ جات میں حکومتی رٹ نہیں ہے۔
اسداللہ بھٹو نے کہا کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی آمرانہ اقدامات اس شدت میں مزید اضافہ کررہے ہیں، سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور دہشتگردی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ملکی استحکام کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسداللہ بھٹو نے مزید کہا کہ سیاسی بحرانوں کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے دل ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے محرومین کی مغفرت درجات بلندی اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسداللہ بھٹو کہا کہ
پڑھیں:
9 مئی کو ملٹری تنصیبات پر حملے سیکیورٹی کی ناکامی تھے، جسٹس حسن اظہر رضوی
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ 9 مئی کو ملٹری تنصیبات پر حملے سیکیورٹی کی ناکامی تھے، کیا اس وقت ملٹری افسران کیخلاف کارروائی کی گئی؟ کیا 9 مئی پر کسی ادارے نے احتساب کیا؟
جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب تو اٹارنی جنرل ہی دیں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید سول کیا کہ 9 مئی کے کیسز میں پک اینڈ چوز کیسے کیا؟
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پک اینڈ چوز والی کوئی بات نہیں، جرم کو اس کی نوعیت کے مطابق اے ٹی سی کا ملٹری کورٹ بھیجا جاتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا سویلینز اس کے زمرے میں آتے ہیں؟ قانون تو فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کیلئے ہے، ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے جو زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا خواجہ صاحب ایسا نہ ہو کہ نمازیں بخشوانے آئیں اور روزے گلے پڑ جائیں۔
کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔