اسلام آباد:

انسداد دہشت گردی عدالت نے اُم حسان اور دیگر ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی نگراں ام حسان اور دیگر ملزمان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری عملے پر مبینہ فائرنگ کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔

ام حسان اور دیگر ملزمان کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے کی۔ پولیس کی جانب سے ام حسان اور دیگر ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

عدالت نے ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور ام حسان اور دیگر ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ام حسان اور دیگر ملزمان

پڑھیں:

سویلینز ٹرائل؛ اے ٹی سی ملزمان حوالگی کی کمانڈنگ افسر کی درخواست مسترد کرسکتی تھی، جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد:

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے بعد ملزمان  آرمی ایکٹ کے تابع ہوگئے۔
 

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل دیے۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ 105 ملزمان کے ملٹری ٹرائل کے لیے سلیکشن کیسے ہوئی، اصل ایشو یہ ہے کیا قانون اجازت دیتا ہے؟۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی ریکارڈ کا معاملہ ہے۔ کیا آپ نے آرمی ایکٹ کے سیکشن 94 کو چیلنج کیا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ملزمان کی حوالگی کے وقت جرم کا تعین نہیں ہوا تھا۔ سیکشن 94 کے لامحدود صوابدیدی اختیار کو بھی چیلنج کیا ہے۔

وکیل نے دلائل میں کہا کہ ملزمان کی ملٹری حوالگی کا فیصلہ کرنے والے افسر کے اختیار لامحدود ہیں۔ اس ملک میں وزیر اعظم کا اختیار لامحدود نہیں۔ ملزمان حوالگی کے اختیارات کو اسٹریکچر ہونا چاہیے۔

جسٹس حسن رضوی نے استفسار کیا کہ کیا پولیس کی تفتیش کم اور ملٹری کی تیز تھی؟ کیا ملزمان کی حوالگی کے وقت مواد موجود تھا؟، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مواد کا ریکارڈ پر ہونا نہ ہونا مسئلہ نہیں۔ ساری جڑ ملزمان حوالگی کا لامحدود اختیار ہے۔ کمانڈنگ افسر سیکشن 94 کے تحت حوالگی کی درخواست دیتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا انسداد دہشتگردی عدالت حوالگی کی درخواست مسترد کر سکتی ہے؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کو ملزمان کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ دفاع تو ملزمان کی جانب سے انسداد دہشتگردی عدالت یا اپیل میں اپنایا جا سکتا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو نوٹس بھی جاری نہیں کیا تھا۔ عدالت نے کمانڈنگ افسر کی درخواست آنے پر ازخود فیصلہ کر دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہے۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے بعد ملزمان آرمی ایکٹ کے تابع ہو گئے۔ انسداد دہشتگردی عدالت کمانڈنگ افسر کی درخواست کو مسترد بھی کر سکتی تھی۔

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ ملزمان کی حوالگی سے قبل ہونا تھا۔ اگر کورٹ مارشل کا فیصلہ نہیں ہوا تو ملزمان کی حوالگی کیسے ہو سکتی ہے۔

جسٹس حسن رضوی نے سوال کیا کہ کیا کمانڈنگ افسر کی درخواست میں حوالگی کی وجوہات بتائی گئیں؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کمانڈنگ افسر کی درخواست میں کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ملزمان حوالگی کی درخواست میں وجوہات بتائی گئیں۔ درخواست میں بتایا گیا کہ ملزمان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پرنسپل جامعہ حفصہ ام حسان سمیت 7 خواتین ضمانت پر رہا
  • کار سرکار میں مداخلت،ام حسان ودیگر کی ضمانت منظور،عدالت کا رہا کرنے کا حکم
  • 26 نومبر احتجاج؛ پی ٹی آئی کے 52 کارکنوں کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
  • ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 10 مارچ تک توسیع کی استدعا منظور
  • مصطفی عامر قتل کیس، ملزم ارمغان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے، شیراز کو جیل بھیج دیا
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: مرکزی ملزم ارمغان کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دن کی توسیع
  • 26 نومبراحتجاج؛ پی ٹی آئی کے گرفتاررکن اسمبلی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم
  • بوٹ بیسن واقعہ، عدالت نے پانچ ملزمان کو جیل بھیج دیا
  • سویلینز ٹرائل؛ اے ٹی سی ملزمان حوالگی کی کمانڈنگ افسر کی درخواست مسترد کرسکتی تھی، جسٹس جمال مندوخیل