میانمار میں 5.1 درجے شدت کا زلزلہ،کوئی جانی ومالی نقصان نہیں ہوا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ینگون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 مارچ2025ء)میانمار میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں جن کی شدت ریکٹر سکیل پر 5.1 ریکارڈ کی گئی ہے ۔
(جاری ہے)
چینی میڈیا کے مطابق ملک کے محکمہ موسمیات اور ہائیڈرولوجی( ڈی ایم ایچ)نے بتایا کہ بدھ کی صبح 4بجکر 36 منٹ پر5.1 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا ہے ،زلزلے کا مرکز اییرواڈی ریجن کے نیوانگڈون قصبے کے جنوب مشرق میں تقریبا 6 میل کے فاصلے پر تھا جس کی گہرائی سطح زمین سے 10کلومیٹر نیچے تھی۔ زلزلے سے تاحال کسی جانی و مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
ادبِ اور بغاوت
جب بھی جبر کی سیاہ رات گہری ہوتی ہے لفظ بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھیے تو ہر آمریت ہر استبداد ہر جابرانہ قوت کے سامنے ادب نے مزاحمت کی چنگاری جلائی ہے۔ یہ چنگاری کبھی فیض کے اشعار میں دہکی کبھی منٹوکے افسانوں میں لپکی کبھی جالب کی نظموں میں گونجی توکبھی قرۃ العین حیدرکے ناولوں میں سلگتی رہی۔ یہی وہ مزاحمتی ادب ہے جس نے ظلم کی کوکھ میں امیدکا چراغ جلایا اور یہی وہ روایت ہے جو آج بھی سسکتی سانسوں میں زندہ ہے۔
ادب اور بغاوت کے رشتے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بغاوت کو پہچانا جائے۔ بغاوت صرف ہتھیار اٹھانے کا نام نہیں بلکہ یہ ہر اس کوشش کا نام ہے جو جبر اور استحصال کے خلاف کی جائے۔
بغاوت وہی لوگ کرتے ہیں جو حالات سے سمجھوتہ کرنے سے انکارکردیتے ہیں، جو سچائی کوکسی بھی قیمت پر چھپانے پر راضی نہیں ہوتے۔ ادیب جب اپنے سماج کے جبر اور ظلم کو دیکھتا ہے تو وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے یا تو وہ خاموشی اختیارکر لے اور حالات سے سمجھوتہ کر لے یا پھر اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر سچ بولے چاہے اس کی کتنی ہی قیمت چکانی پڑے۔ جو دوسرا راستہ اختیارکرتے ہیں وہی وہ ادیب ہوتے ہیں جو تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔
بغاوت صرف مرد ادیبوں تک محدود نہیں خواتین ادیبوں نے بھی اپنے قلم کو جبرکے خلاف استعمال کیا ہے۔ عصمت چغتائی نے لحاف میں عورتوں کی دبی ہوئی خواہشات کو بیان کیا جو اس وقت کے سماج کے لیے ناقابل قبول تھا۔ قرۃ العین حیدر نے تاریخ کو نسائی آنکھ سے دیکھا اور اپنی تحریروں میں وہ سچ بیان کیے جو اکثر چھپائے جاتے رہے۔
یہ کہانی صدیوں پرانی ہے۔ جب کبھی طاقت کے نشے میں چور حکمراں حق کی آواز کو دبانے نکلے تو لفظوں نے انھیں للکارا۔ سقراط سے منصور حلاج تک برونو سے بھگت سنگھ تک ان گنت نام ہیں جو اس زمین پر آمرانہ قوتوں کے خلاف کھڑے ہوئے اور اپنے قلم کی طاقت سے ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا، اگر آپ کو اس کی تازہ ترین مثال چاہیے تو دیکھیے کہ کس طرح آج بھی وہ قلم جو سچ لکھتے ہیں انھیں خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کے الفاظ پر قدغن لگائی جاتی ہے انھیں غدار اور ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ یہ زنجیریں ہمیشہ کمزور پڑتی ہیں اور سچ کا چراغ ہمیشہ جلتا رہتا ہے۔
جب فیض احمد فیض نے لکھا۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
تو یہ صرف ایک شاعرکی آہ نہیں تھی یہ ہر اس شخص کی فریاد تھی جو ظلم کے خلاف لکھنے بولنے اور سوچنے کی سزا بھگت رہا تھا۔ فیض ہوں یا جالب انھوں نے اپنے اشعار میں آمریت کو للکارا اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے۔ مگرکیا ان کے لفظ مرگئے؟ کیا ان کی شاعری کا اثر ختم ہو گیا؟ نہیں بلکہ ان کے لفظ آج بھی اتنی ہی شدت سے گونجتے ہیں جتنے تب گونجتے تھے۔
منٹو نے جب سماج کے ننگے سچ کو بے نقاب کیا تو ان پر مقدمے کیے گئے۔ ان کے افسانے فحش قرار دیے گئے مگر ان کا قلم نہ رُکا۔ وہ لکھتے رہے اور یوں ان کے کردار آج بھی ہمارے بیچ زندہ ہیں وہی سعادت حسن منٹو آج بھی ہمارے سماج کے منافقانہ چہرے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
ادب اور مزاحمت کا تعلق ہمیشہ سے ہے یہ کہنا کہ ادب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے خود ایک سیاسی بیان ہے کیونکہ جو بھی جبرکے خلاف لکھے گا وہ سیاست میں شمار ہوگا وہ اقتدار کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کرے گا۔ قرۃ العین حیدر کے ناول ہوں یا انتظار حسین کے افسانے سب نے تاریخ کے ان چھپے ہوئے صفحات کو پلٹ کر دیکھا جنھیں فراموش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
آج بھی دنیا بھر میں جابر قوتیں ادیبوں اور صحافیوں کو خاموش کرانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ کہیں اظہارِ رائے کی آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ،کہیں سچ بولنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے ،کہیں انھیں جلاوطنی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ کھیل نیا نہیں پرانا ہے، بہت پرانا مگر ہر دور میں کوئی نہ کوئی قلمکار کوئی نہ کوئی شاعر کوئی نہ کوئی فنکار اٹھتا ہے جو سچ کہنے کی ہمت کرتا ہے اور تاریخ کے صفحات پر اپنا نام رقم کر دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ادب کو محض تفریح سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔ ادب وہ آئینہ ہے جس میں ہر دورکے حکمراں اپنا اصل چہرہ دیکھتے ہیں اور گھبرا جاتے ہیں۔ یہی گھبراہٹ انھیں کتابوں پر پابندی لگانے ادیبوں کو جیلوں میں ڈالنے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے پر مجبورکرتی ہے، مگر کیا تاریخ میں کوئی ایسا دور آیا جب یہ ہتھکنڈے کامیاب ہوئے ہوں نہیں ہمیشہ سچ جیتا ہے ہمیشہ لفظوں نے بندوقوں کو شکست دی ہے۔
آج کا دور بھی مختلف نہیں، آج بھی وہی کشمکش جاری ہے۔ آج بھی کہیں نہ کہیں کوئی ادیب کوئی شاعرکوئی فنکار ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی راہ میں مشکلات آئیں گی مگر وہ لکھنے سے باز نہیں آتا،کیونکہ جو قلم ایک بار سچ لکھنے کا عادی ہو جائے وہ پھر خاموش نہیں رہ سکتا۔یہی وہ چراغ ہے جو بجھتا نہیں یہی وہ مزاحمت ہے جو تھمتی نہیں یہی وہ لفظ ہیں جو ہمیشہ حکمراں سے ٹکراتے ہیں اور آخرکار جیت ہمیشہ ان ہی کی ہوتی ہے۔
آج کے دور میں جب اظہار رائے پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں جب صحافت اور ادب کو دبایا جا رہا ہے، ایسے میں یہ سوال مزید اہم ہوجاتا ہے کہ ادب اور بغاوت کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ہم ایک ایسا سماج دیکھ رہے ہیں جہاں ادیب کو سچ بولنے کی اجازت نہیں ہوگی یا پھر یہ بغاوت ایک نئے رنگ میں سامنے آئے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے فیض اور جالب کا دور دیکھا اور ان سے ملاقاتیں بھی رہیں۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ فیض صاحب کی آخری تحریر میرے افسانے کا انگریزی ترجمہ تھا۔