مقبوضہ کشمیر جیسے خطوں میں ماحولیاتی حقوق کا تحفظ عالمی برادری کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، مقررین
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ذرائع کے مطابق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر ”آئی اے ایس پی ڈی اور کے آئی آئی آر“ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں بین الاقوامی ماہرین، ماحولیاتی کارکنوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اسلام ٹائمز۔ جنیوا میں منعقدہ ایک تقریب کے مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر جیسے جنگ زدہ خطوں میں ماحولیاتی حقوق کے تحفظ میں درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک صحت مند ماحول کا ہونا اشد ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58ویں اجلاس کے موقع پر ”آئی اے ایس پی ڈی اور کے آئی آئی آر“ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں بین الاقوامی ماہرین، ماحولیاتی کارکنوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی اور خطاب کیا جن میں امریکہ سے انسانی حقوق کی کارکن میری سکلی، راجہ عاصم زیب، الطاف حسین وانی، طلحہ بھٹی اور کینتین نے شرکت کی۔ تقریب کی نظامت صدر آئی اے ایس پی ڈی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے آئی آئی آر سردار امجد یوسف خان نے کی۔
امجد یوسف خان نے انسانی حقوق کونسل کی تاریخی قرارداد کی اہمیت کو اجاگر کیا، جس میں صاف صحت مند اور پائیدار ماحول کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے انسانی حقوق کے حصول کے لیے صحت مند ماحول ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد زدہ علاقوں میں صحت مند ماحول کا حق بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قانون کا ایک لازمی پہلو ہے جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔پینلسٹس بت ماحول پر مسلح تنازعات کے تباہ کن اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلح تنازعات نہ صرف خونریزی اور تشدد کا باعث بنتے ہیں بلکہ یہ پانی کی فراہمی کو متاثر اور ماحولیاتی نظام کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر تنازعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس تنازعے نے خطے میں ماحولیاتی بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، کشمیر جیسے ماحولیاتی طور پر نازک خطے میں بڑے پیمانے پر فوجیوں کے ارتکاز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایل او سی کے ساتھ ساتھ حساس علاقوں میں فوجیوں کی تعیناتی اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال سے گلیشیئر تیزی سے پگھلنے، جنگلات کی کٹائی، پانی کی کمی اور نازک ماحولیاتی نظام کی تنزلی جیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر ان علاقوں میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔پینلسٹس نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی تعیناتی کی وجہ سے ماحول بری طرح متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے معاہدوں کے باوجود، قانون کا نفاذ اور اس کے عملدرآمد کا عمل بدستور کمزور ہے اور جوابدہی کا طریقہ کار محدود ہے۔پینلسٹس نے کہا کہ یہ حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی قوانین کو نافذ کریں جو ان کے زیرانتظام علاقوں میں انسانی حقوق کی حفاظت سمیت عام شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی اور صحت مند ماحول بہم پہنچانا شامل ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے صحت مند ماحول بین الاقوامی علاقوں میں
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، سیاستدانوں کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر کڑی تنقید
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرینگر میں میڈیا سے گفتگو میں لیفٹیننٹ گورنر کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منوج سنہا کی تقریر میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سیاسی لیڈروں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے خطاب میں دفعہ 370 کی بحالی کے بارے میں بات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارتی آئین کی اس دفعہ کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جسے مودی حکومت نے اگست2019ء میں غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق منوج سنہا نے جموں میں نو منتخب اسمبلی کے پہلے بجٹ اجلاس کے آغاز کے موقع پر خطاب کیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرینگر میں میڈیا سے گفتگو میں لیفٹیننٹ گورنر کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منوج سنہا کی تقریر میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو امید تھی کہ وہ ان کے حقوق یا انہیں درپیش مسائل کے بارے میں کوئی بات کریں گے تاہم انہوں نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا، تو کشمیریوں کو اس بارے میں خدشات لاحق ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر منوج سنہا نے اپنے خطاب میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے کشمیریوں کے مطالبات کو تسلیم کیا تاہم وہ اس کی بحالی کیلئے کسی مدت کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے بھی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی نام نہاد حکومت جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ کشمیریوں نے انتخابات میں نیشنل کانفرنس پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم وہ اب بی جے پی کے سامنے سرنگوں ہو چکی ہے اور اس نے دفعہ 370 کی بحالی کے کشمیریوں کے مطالبے پر چپ سادھ رکھی ہے۔ سجاد لون نے کہا کہ اگر پارٹی اقتدار میں ہوتی تو ایل جی کا خطاب بی جے پی کی تقریر ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ منوج سنہا کے خطاب میں دفعہ 370 اور 35A کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں تھا جو کشمیریوں کا مقبول ترین مطالبہ ہے۔ انہوں نے نام نہاد وزیراعلیٰ عمرعبداللہ پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آنے سے قبل ان کی توجہ دفعہ370 کی بحالی پر مرکوز تھی لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے اس مطالبے کو ترک کر دیا ہے۔