یو اے ای میں بھارتی گھریلو ملازمہ کو آجر کے بچے کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
متحدہ عرب امارات میں بھارتی گھریلو ملازمہ کو اپنے آجر کے بچے کو قتل کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ایک بھارتی جوڑے کے لیے کام کرنے والی شہزادی خان کو گزشتہ ماہ پھانسی دی گئی تھی، ابوظہبی کی عدالت کی دستاویزات کے مطابق شہزادی خان نے بچے کا گلہ دبایا، جس سے دم گھٹنے سے وہ جان کی بازی ہار گیا، لیکن ٹرائل میں گواہی دینے والا ڈاکٹر اس بات کی تصدیق نہیں کرسکا، کیوں کہ اسے پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ شہزادی خان بے قصور تھی اور لڑکے کی موت غلط انجیکشن لگانے کی وجہ سے ہوئی تھی، شہزادی خان کو مقدمے کی سماعت کے دوران مناسب نمائندگی نہیں ملی، بی بی سی نے اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کے حکام سے رابطہ کیا۔
شہزادی خان کو پھانسی 15 فروری کو دی گئی تھی، لیکن 3 مارچ کو بھارتی حکام نے اس خبر کی تصدیق کی، جب شہزادی خان کے والدین نے بیٹی کے بارے میں معلومات کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
سزائے موت سے متعلق رازداری نے بھارت میں شہ سرخیوں میں جگہ بنائی، جس کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، لاکھوں بھارتی یو اے ای میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔
شہزادی خان کے اہل خانہ کی جانب سے دائر درخواست کے مطابق وہ دسمبر 2021 میں ابوظہبی منتقل ہوئی تھیں، ان کی ذمہ داری ایک خاندان کی دیکھ بھال کا کام کرنے کی تھی۔
انہیں اس بچے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی، جو اگست 2022 میں پیدا ہوا تھا، شہزادی خان کے والد کے مطابق وہ اکثر شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں اپنے اہل خانہ کو فون کرتی تھی، ویڈیو کال کے ذریعے بچے کو دکھاتی تھی، لیکن بچے کی موت کے بعد فون کالز آنا بند ہو گئیں، اور بعد میں فیملی کو پتہ چلا کہ شہزادی خان جیل میں ہیں۔
شہزادی خان کے اہل خانہ کے مطابق ویکسین لگوانے کے چند گھنٹوں بعد ہی 7 دسمبر 2022 کو بچے کی موت ہو گئی تھی۔
پولیس نے 2 ماہ بعد شہزادی خان کو گرفتار کرلیا، حالاں کہ انہوں نے اصرار کیا کہ بچے کو قتل کرنے کا اعترافی ویڈیو بیان جبری طور پر لیا گیا تھا، اور اسے عدالت میں مناسب قانونی مدد نہیں ملی تھی۔
انہیں جولائی 2023 میں سزائے موت سنائی گئی تھی، ان کی اپیل فروری 2024 میں مسترد کر دی گئی تھی۔
شہزادی خان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے آخری بار 13 فروری کو شہزادی خان کا فون سنا، جب انہوں نے جیل سے فون کیا اور کہا تھا کہ اگلے دن انہیں پھانسی دی جاسکتی ہے۔
اس کے والد شبیر خان نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ وہ روتے ہوئے کہنے لگی کہ اسے ایک الگ سیل میں رکھا گیا ہے اور وہ زندہ باہر نہیں آئے گی، یہ آخری کال ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد جب شہزادی خان کے اہل خانہ نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی، جس میں حکومت سے معلومات مانگیں کہ آیا انہیں پھانسی دی گئی ہے یا نہیں؟۔
شہزادی خان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ مناسب قانونی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹی کو سزائے موت ملی۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو ایک انٹرویو میں ان کے والد شبیر خان نے کہا کہ انہیں انصاف نہیں ملا، ہر جگہ کوشش کی ، پچھلے سال سے ادھر ادھر بھاگ رہا ہوں، لیکن میرے پاس وہاں [ابوظہبی] جانے اور وکیل کے لیے پیسے نہیں تھے۔
اس سے قبل بی بی سی ہندی کو جاری ایک بیان میں شہزادی خان کے آجر نے کہا تھا کہ ’شہزادی نے میرے بیٹے کو بے دردی سے اور جان بوجھ کر قتل کیا، جو تمام شواہد کی روشنی میں متحدہ عرب امارات کے حکام پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں‘۔
میڈیا اور دیگر حکام کو گمراہ کن معلومات فراہم کی گئی ہیں، تاکہ ان کی ہمدردی حاصل کی جا سکے اور اصل جرم سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
فروری میں بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ کل 54 بھارتیوں کو بیرون ممالک میں سزائے موت سنائی گئی، جن میں سے 29 متحدہ عرب امارات میں ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شہزادی خان کے اہل خانہ متحدہ عرب امارات شہزادی خان کو کا کہنا ہے کہ دی گئی تھی سزائے موت کے مطابق بچے کو
پڑھیں:
بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی اور جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ
بھارتی سپریم کورٹ نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی یا کوئی جرم نہیں ہے۔
یہ مقدمہ ضلع جارکھنڈ میں واقع سب ڈویژنل آفس کے ایک مسلمان کلرک کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔
کلرک نے ہری نندن سنگھ نامی ایک شہری کے خلاف اس وقت عدالت سے رجوع کیا جب انہوں نے مبینہ طور پر کلرک کی ان کی مسلم شناخت کی بنیاد پر تضحیک کی اور انہیں طنزاً ’پاکستانی‘ کہا۔
یہ بھی پڑھیے: بھارتی سپریم کورٹ کا یوپی مدارس کو بڑا ریلیف، پابندی کا فیصلہ کالعدم
واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کے لیے انہیں ’پاکستانی‘ کہنے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں اور ماضی میں راہول گاندھی سمیت دیگر اہم شخصیات کو ہندو قوم پرست جماعتوں کی طرف سے ’پاکستانی‘ کہا گیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے مذکورہ واقعے میں ریمارکس دیے ہیں کہ گو کہ کسی کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی یا جرم نہیں لیکن یہ کہنا’اچھی بات‘ بھی نہیں ہے۔
بعد میں اس معاملے میں ملزم کو تمام الزامات سے بری کرکے کیس خارج کردیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
indian supreme court انڈیا سپریم کورٹ