حبا بخاری اور آریز احمد نے نادیہ خان کو ان کا راز فاش کرنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
پاکستان شوبز کی خوبرو اداکارہ حبا بخاری اور ان کے شوہر آریز احمد نے نادیہ خان سے متعلق تنازع پر خاموشی توڑ دی۔
حال ہی میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حبا بخاری اور آریز احمد نے نادیہ خان کے تنازع پر بات کی جس کا مداحوں کو بےصبری سے انتظار تھا کیونکہ اس تنازع کا سوشل میڈیا پر بھی خوب چرچا ہوا تھا۔
نادیہ خان نے حبا بخاری کے حمل کی خبر کا اعلان ان سے پہلے ہی کر دیا تھا اور انہیں کسی اداکارہ کی نجی خبر شیئر کرنے پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
آریز احمد نے اس تنازع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈسٹری میں تقریباً ہر کوئی جانتا تھا کہ والدین بننے والے تھے لیکن ان لوگوں کے پاس شائستگی ہے کہ وہ خود سے آگے بڑھ کر اس خوشخبری کو شیئر نہ کریں۔ اس ہی طرح نادیہ خان بھی سب کی طرح جانتی تھیں مگر انہوں نے اس بات کا اعلان ٹیلی ویژن پر کردیا۔
آریز احمد نے نادیہ خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ باتیں آپ کی اپنی ہوتی ہیں جو آپ خود دنیا کو بتانا چاہتے ہیں‘۔
View this post on InstagramA post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)
اس موقع پر حبا بخاری نے ہم ایوارڈز کے تنازع کے بارے میں بھی بات کی اور بتایا کہ جب وہ حاملہ تھیں تو انہیں کس طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اداکارہ نے حمل کے دوران ایوارڈز کی تقریب میں پہنے گئے اپنے لباس پر کہنا تھا کہ ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے اور شاید لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن وہ صرف اپنے آپ کو دیکھتی ہیں اور کسی کی رائے پر فوکس نہیں کرتیں۔
عریز احمد نے اہلیہ حبا بخاری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عورت کا حاملہ ہونا فطری بات ہے اور لوگوں کو اس سے اسی طرح نمٹنے کی ضرورت ہے۔ عورت گھر میں صرف اس لیے نہیں بیٹھ سکتی کہ وہ حاملہ ہے اگر کوئی عورت آٹھویں مہینے میں کام کر رہی ہے تو یہ اس کی مرضی ہے کسی کو اس بات سے مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احمد نے نادیہ خان
پڑھیں:
بلوچستان: دہشتگردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب
بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں خواتین کے استعمال کی گھناؤنی حقیقت بے نقاب ہو گئی۔بلوچستان میں جاری دہشت گردی میں خواتین خود کش حملہ آوروں کا استعمال دہشت گردوں کی ذہنیت کا واضح عکاس ہے ۔ ذرائع کے مطابق خواتین کےخود کش حملوں میں اب تک معصوم شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں۔ذرائع کے مطابق بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں خواتین کو ڈھال بنا کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو سرانجام دیتی ہیں۔ خواتین خودکش بمباروں کے استعمال کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سکیورٹی جانچ پڑتال سے بچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کیوں کہ خواتین کو کم مشکوک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دہشتگردوں میں شمولیت کے لیے موزوں ہدف بن جاتی ہیں۔دہشتگرد تنظیمیں منظم طریقہ کار کے تحت خواتین کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے لیے ہدف بناتی ہیں۔ دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور جال میں پھنسا لیتے ہیں۔دہشت گرد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کمزور نوجوان خواتین کی بھرتی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اور آن لائن حربے دہشتگردی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کی جانب سے نفسیاتی حربے اور بلیک میلنگ خواتین کو مجبور کرنے کے عام ہتھکنڈے ہیں۔ دہشتگردوں کی جانب سے خواتین کی جذباتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں دھکیلا جاتا ہے۔ اسی طرح معاشی مسائل اور سماجی تنہائی نوجوان خواتین کو دہشتگردوں کے لیے آسان ہدف بنا دیتی ہیں۔دہشت گرد گروہ نوجوان خواتین کو خودمختاری کے جھوٹے وعدوں سے ورغلاتے ہیں اور انہیں استحصال کے جال میں پھنسا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا دہشت گردوں کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بن چکا ہے جو کمزور خواتین کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔خواتین کو جذباتی بلیک میلنگ اور دھوکا دہی پر مبنی تعلقات کے ذریعے انتہا پسندی میں دھکیلا جاتا ہے۔ذرائع کے مطابق روشن مستقبل کا وعدہ اکثر انتہا پسندی اور جبر کے بھیانک خواب میں بدل جاتا ہے۔بی ایل اے اور دیگر انتہا پسند گروہ اقتصادی مشکلات اور سماجی تنہائی کا فائدہ اٹھا کر خواتین کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتے ہیں۔بلوچستان میں خودکش بمبار خواتین میں شاری بلوچ، ماہل بلوچ اور عدیلہ بلوچ جیسی خواتین دہشتگردوں کی آلہ کار بن چکی ہیں۔ بی ایل اے کے کارندے تعلیم یافتہ خواتین کو خودکش مشنز کے لیے منظم طریقے سے ہدف بناتے ہیں۔عدیلہ بلوچ بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں جودہشتگردوں کے ایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھیں۔ذرائع کے مطابق عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے آن لائن جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا۔ عدیلہ بلوچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا، جہاں ان کے جذبات سے کھیلا گیا اور انہیں پھنسایا گیا۔ عدیلہ بلوچ کو خودمختاری اور روشن مستقبل کے خواب دکھا کر اسے دہشتگردوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ بی ایل اے نے عدیلہ بلوچ کی ذاتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اسے دہشت گردی میں ملوث کیا۔ عدیلہ بلوچ، جو کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں، دہشتگردوں کےایجنڈے کے لیے ایک قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی تھی۔خواتین خودکش بمباروں کےحملوں میں اب تک پاکستانی شہریوں سمیت سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوچکی ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اوربلوچ یکجہتی کمیٹی جیسی تنظیمیں سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کا ہدف سماجی طور پر الگ تھلگ، مالی مشکلات کا شکار یا اخلاقی مسائل میں الجھی ہوئی خواتین ہوتی ہیں۔ذرائع کے مطابق عدیلہ بلوچ کی کہانی، دہشتگردوں سےمتاثرہ بلوچ خاتون سے زندہ بچ جانے والی خاتون تک کے سفر کی کہانی ہے .یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل گرفتار کی گئی عدیلہ بلوچ نے پریس کانفرنس میں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات کیے تھے۔ عدیلہ بلوچ نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے۔ میں غلط راستے پر چل رہی تھی، مجھے بہکایا گیا تھا۔ دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔عدیلہ بلوچ نے کہا تھا کہ وہ اب دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں اور نوجوانوں کو محتاط رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
دوسری جانب دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی منصوبہ بند خودکش حملوں کو کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔ وہ خواتین خودکش بمبار جو خود کو دھماکے سے اڑانے سے باز رہیں یا بازیاب ہوئیں، انہیں عام شہریوں کی طرح معاشرے میں قبول کیا گیا ہے۔دفاعی و نفسیاتی ماہرین کے مطابق انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار آگاہی پھیلانا ہے تاکہ ذہنی تبدیلی کو روکا جا سکے۔آگاہی اور کھلی بات چیت انتہا پسندی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ تعلیم اور خاندانی تعاون دہشتگردوں کیخلاف سب سے مضبوط رکاوٹ ہیں۔ خواتین کو ترغیب دی جانی چاہیے کہ وہ ہدف بننے کی صورت میں اپنے خاندان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد حاصل کریں۔ تعلیم اور خاندانی حمایت دہشت گردوں کی سازشوں اور بلیک میلنگ کے خلاف سب سے مضبوط دفاع ہیں۔سوشل میڈیا پر جعلی دوستیاں اکثر حقیقی زندگی میں دہشت گردوں کے دھوکا دہی اور جبر کا باعث بنتی ہیں۔ دہشت گرد نیٹ ورکس میں پھنسی خواتین شدید نفسیاتی صدمے کا سامنا کرتی ہیں۔خاندانوں کو چوکنا رہنا چاہیے اور اپنے پیاروں کو انتہا پسندوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے جذباتی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔خواتین کی حقیقی خودمختاری، تعلیم اور ثابت قدمی میں مضمر ہے، انتہا پسندوں کے جھوٹے وعدوں میں نہیں۔