ڈونلڈ ٹرمپ کا کانگریس سے پہلا خطاب، دہشتگرد کی گرفتاری پر پاکستان سے اظہارِ تشکر
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا پھر سے میدان میں آ گیا ہے، ہم نے ڈیڑھ ماہ میں جتنا کام کیا، اتنا دیگر نے 4 سال میں کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کانگریس سے پہلا خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔
صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس آل گرین کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا جس پر انہیں کانگریس سے نکال دیا گیا۔
اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا، ڈیموکریٹ میرے لیے کھڑے نہیں ہوں گے، ایسا ہونا نہیں چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ابھی تو کام شروع ہی کیا ہے، معیشت کی بحالی میری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، جوبائیڈن نے انڈوں تک کی قیمت لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر کردی تھی۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ہم نے توانائی کی قیمتوں میں کمی کی ہے، مزید پاور پلانٹ کھول رہے ہیں، اسی لیے نیشنل انرجی ایمرجنسی نافذ کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پچھلی انتظامیہ سے ہمیں معاشی تباہی اور افراط زر کا ڈراؤنا خواب ملا تھا، ڈیموکریٹس کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر امریکا کو عظیم بنائیں۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کی رقم کا زیاں روکنے کے لیے میں نے ڈوج شعبہ بنایا، معدنیات کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے تاریخی اقدامات کروں گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ میری قیادت میں امریکا نا قابلِ تسخیر ہے، توانائی کی قیمتوں میں کمی کی، پاور پلانٹ کھول رہے ہیں، میں نے نیشنل انرجی ایمرجنسی نافذ کی۔
انہوں نے کہا کہ شرحِ سود میں کمی لائی گئی، بجٹ میں توازن لائیں گے، 5 ملین ڈالرز سے گولڈ کارڈ جاری کریں گے جو گرین کارڈ سے بہتر ہو گا، ہم اپنا قرض گولڈ کارڈ لینے والوں کی رقم سے اتاریں گے، تبدیلی کی راہ میں حائل بیوروکریٹس کو نکال دیں گے، 6 ہفتوں کے دوران تقریباً 100 کے قریب ایگزیکٹیو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں، امداد کے طور پر دیا پیسہ واپس لا کر مہنگائی کم کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ 2 اپریل سے جو ملک امریکا پر ٹیکس لگائے گا، ہم اس پر جوابی ٹیکس لگائیں گے، کینیڈا کو سبسڈی دیتے ہیں، اب ایسا نہیں ہو گا، نئی تجارتی پالیسی سے کسانوں کو فائدہ ہو گا، کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا، 4 سال میں 21 ملین افراد امریکا آئے، بائیڈن کی اوپن بارڈر پالیسی تھی، ہم غیرقانونی امیگرینٹس کو نکالیں گے، غیر قانونی امیگرینٹس کے خلاف امریکی تاریخ کا سخت ترین کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، میکسیکن گینگ اسی فہرست میں شامل ہے جس میں داعش ہے، کینیڈا اور میکسیکو کو امریکا میں منشیات کی اسمگلنگ روکنا ہو گی۔
امریکی صدر کا پاکستان سے اظہارِ تشکر
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین سال پہلے داعش نے 13 امریکیوں کو افغانستان میں قتل کیا، افغانستان سے انتہائی شرم ناک انداز سے انخلاء کیا گیا، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ افغانستان میں دہشت گری کا بڑا ذمے دار پکڑا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکیوں کو ہلاک کرنے والا اس وقت امریکا لایا جا رہا ہے، اسے لایا جا رہا ہے تاکہ وہ امریکا میں قانون کا سامنا کرے، اس دہشت گرد کی گرفتاری میں مدد پر حکومتِ پاکستان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کانگریس میں خطاب کے دوران کئی ڈیموکریٹک اراکین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لفظ ’جھوٹا‘ لکھا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت کے درمیان ماہی گیروں کی گرفتاری انسانی المیہ ہے، ایچ آر سی پی
لاہور:ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری سرحدوں پر غیر ارادی طور پر پھنس جانے والے ماہی گیروں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع علاقائی پالیسی فریم ورک جاری کر دیا ہے۔
اس فریم ورک میں دونوں ممالک کے مابین تنازعات کی بھینٹ چڑھنے والے غریب ماہی گیروں کی حالتِ زار، جیلوں میں ان کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک اور ان کے خاندانوں پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر سال درجنوں پاکستانی اور بھارتی ماہی گیر بحیرہ عرب میں غیر ارادی طور پر سمندری حدود عبور کرنے کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں، جن میں اکثریت غریب ساحلی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہوتی ہے۔ ان ماہی گیروں کو اکثر طویل عرصے تک بغیر مقدمے کے قید رکھا جاتا ہے اور وہ اپنے خاندانوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کو ایک انسانی مسئلہ سمجھا جائے، نہ کہ قومی سلامتی یا سیاسی تنازع کا معاملہ۔ کمیشن کی ڈائریکٹر طاہرہ حسن کے مطابق، یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سمندری حدود کی غیر واضح تقسیم ہے۔ اکثر ماہی گیر جدید نیویگیشن کے آلات سے محروم ہوتے ہیں اور لاعلمی میں مخالف ملک کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک بار قید ہونے کے بعد، نہ صرف وہ برسوں جیل میں سڑتے ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی شدید مالی اور جذباتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی دو سالہ تحقیق، 100 سے زائد متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز اور بین الاقوامی قوانین کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ میں متعدد ٹھوس تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ماہی گیروں کی گرفتاری کی صورت میں 24 گھنٹوں کے اندر اہلِ خانہ اور قونصلر حکام کو اطلاع دینا، سمندری حدود کی واضح نشاندہی، سرحدی علاقوں میں مشترکہ نگرانی، جیلوں میں تشدد کی روک تھام، طبی سہولیات کی فراہمی، اور ماہی گیروں کو ان کے خاندانوں سے رابطے کی اجازت شامل ہیں۔
رپورٹ میں دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کے خاندانوں کی دردناک داستانیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ کراچی کی مچھر کالونی کی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کا بیٹا 2019 سے بھارتی جیل میں قید ہے اور چھ سال سے نہ کوئی خط ملا، نہ بیٹے کی کوئی خبر۔
دوسری جانب، بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر بھارت ماجیتھیا نے بیان دیا کہ پاکستانی کوسٹ گارڈز نے انہیں گولیوں سے دھمکا کر گرفتار کیا اور بعد میں 60 قیدیوں کو ایک ہی سیل میں بند کر دیا گیا۔
رپورٹ میں یکم جنوری 2025 تک کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، جن کے مطابق پاکستان میں 266 بھارتی قیدی موجود ہیں جن میں 217 ماہی گیر ہیں، جبکہ بھارت میں 462 پاکستانی قیدی قید ہیں جن میں 81 ماہی گیر شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے اپنی سزائیں مکمل کر لی ہیں، مگر دونوں ممالک کے مابین رسمی سفارتی تبادلوں کی سست رفتاری کے باعث ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور سارک کے پلیٹ فارم پر مشترکہ اقدامات کرتے ہوئے ایک دوطرفہ ٹاسک فورس قائم کریں، جو ماہی گیروں کی گرفتاری، قانونی معاونت، اور جلد از جلد رہائی کے لیے عملی اقدامات کرے۔
رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کو جدید نیویگیشن آلات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سے بچ سکیں۔
ماہی گیروں کی قید کا یہ مسئلہ سرکریک جیسے متنازعہ علاقے سے بھی جڑا ہوا ہے، جو سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے پانی ماہی گیری کے لیے نہایت موزوں سمجھے جاتے ہیں، اور دونوں جانب کے غریب ماہی گیر ان پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، یہ علاقہ دونوں ممالک کی نیوی کے درمیان کشیدگی کا مستقل مرکز بھی رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ماہی گیروں کو مجرم سمجھنے کے بجائے ایک انسانی ہمدردی کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے۔ ان کی گرفتاری اور قید صرف قانونی یا سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جس کے حل کے لیے ایک مستقل، شفاف اور انسان دوست فریم ورک تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر پاکستان اور بھارت واقعی خطے میں امن، معاشی ترقی اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں تو انہیں ماہی گیروں کے مسئلے پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ قیدی محض خیرسگالی کے وقتی اقدامات کے نہیں، بلکہ مستقل اور منظم انسانی تحفظ کے مستحق ہیں۔