ٹرمپ کی قیادت میں یوکرین-روس جنگ کے خاتمے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، زیلنسکی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک —
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے واشنگٹن کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے پر جلد از جلد مذاکرات اور امن کے معاہدے کے حصول کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔
زیلنسکی نے گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے صدر ٹرمپ سے جنگ کے خاتمے پر اختلافات پر تلخ کلامی کو "افسوس ناک” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ یوکرین کی نایاب معدنیات پر معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکہ کو یوکرین کی معدنیات تک رسائی سے یہ حقوق حاصل ہوں گے کہ وہ ان کو امریکی ٹیکنالوجی کی پروڈکٹس میں استعمال کر سکے۔
ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں زیلنسکی کے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران ان کے صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے ساتھ بات چیت میں بیانات اس طریقے سے نہ رہے جس طرح انہیں ہونا چاہیے تھا۔
"اب وقت ہے کہ اسے درست کیا جائے ۔ ہم چاہیں گے کہ مستقبل میں تعاون اور بات چیت تعمیری ہو۔”
گرما گرم بحث کے بعد صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس سے ملاقات کے وقت کے اختتام سے قبل ہی جانے کو کہا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان معدنیات پر معاہدہ بھی ادھورا رہ گیا۔
میڈیا کے سامنے بحث کے دوران صدر ٹرمپ اور وینس نے کہا کہ امریکہ کی یوکرین کی روس کے خلاف جنگ کے دوران 100 ارب ڈالر کی امداد کے بدلے میں زیلنسکی نے ناشکری کا رویہ اپنایا۔
منگل کو زیلنسکی نے اپنے بیان میں کہا، ” یوکرین کی خود مختاری اور آزادی کو برقرار رکھنے میں امریکہ نے جو کچھ کیا ہے ہم اس کے شکر گزار ہیں۔”
زیلنسکی نے مزید کہا، "میں یوکرین کا امن کے لیے عزم کا اعادہ کرنا چاہوں گا۔ ہم میں سے کوئی بھی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں چاہتا۔یوکرین مذاکرات کی میز پر جتنا جلد ممکن ہو آنے کو تیار ہے تاکہ دیر پا امن کا حصول قریب تر ہو سکے۔ یوکرینیوں سے زیادہ کوئی بھی امن کا خواہاں نہیں ہے۔”
منگل کو نائب امریکی صدر وینس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ روس کے مفاد میں اور یہ یوکرین اور امریکہ کے مفاد میں بھی ہے۔”
زیلنسکی نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے میں پہلا مرحلہ یوکرین اور روس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی ہونا چاہیے۔” فضا میں امن، میزائلوں کے داغنے پر پابندی، دور مار کرنے والے میزائلوں پر پابندی، انرجی اور دوسرے سویلین انفرا اسٹرکچر پر بم برسانے کا خاتمہ اور سمندر میں بھی جنگ بندی، اگر روس بھی یہ سب کرنے کو تیار ہو۔”
بیان میں زیلنسکی نے مزید کہا، "اگر ایسا ہو تو ہم اگلے مرحلوں میں تیزی سے آگے بڑھنا چاہتےہیں اور امریکہ کے ساتھ ایک مضبوط معاہدے کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ "
اس رپورٹ کا موا د اے ایف پی ، اے پی اور رائٹرز سے لیاگیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: زیلنسکی نے یوکرین کی کے ساتھ کے لیے جنگ کے
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(3)
اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا
مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"
اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔
امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"
اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"
ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔
مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟