سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
رمضان کا مہینہ قران مجید کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس پر غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ارادہ ہے کہ اس مہینے میں قران مجید کے بعض احکام پر گفتگو کی جائے۔ آج سود کی حرمت پر بات کریں گے جس کے متعلق قران مجید کا واضح فرمان ہے کہ سود کی حرمت بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:
’پس جو یہودی ہوئے ان کے ظلم کے سبب سے ہم نے ان پر بعض ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں، اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں‘۔ (سورۃ النسآء، آیت160-161)
اس کالم میں پہلے بائبل کے عہدنامۂ قدیم کی، یعنی یہودی بائبل، سے بعض تصریحات پیش کی جائیں گی اور ان کا قرانِ کریم کے ساتھ تعلق بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدنامۂ جدید، جسے یہودی تو نہیں مانتے لیکن مسیحی اسے بائبل کا حصہ سمجھتے ہیں، کی بعض تصریحات کی وضاحت پیش کی جائے گی جن سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دے دی تھی۔ تورات عہدنامۂ قدیم میں، جبکہ انجیل عہدنامۂ جدید میں شامل ہے۔
عہدنامۂ قدیم کی تصریحاتتورات کے سِفر استثنیٰ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے‘۔ (استثنا: باب 23، آیت 19)
تاہم اس کے معاً بعد والی آیت میں’پردیسی‘ سے سود لینا جائز قرار دیا گیا ہے:
’تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا‘۔ (ایضاً: آیت 20)
یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات
یہودیوں کی جانب سے ’اپنے بھائی‘ اور ’پردیسی‘ کے درمیان اس فرق کا قرآن مجید نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ بعض اہلِ کتاب امانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ان کو بڑا خزانہ بھی سپرد کیا جائے، تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے، لیکن ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دینار بھی دیا جائے، تو وہ اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان اُمّیوں (عربوں) کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے (سورۃ آل عمران، آیت75)۔ قران مجید نے اسے اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا ہے۔
سود کے متعلق تورات کی کئی دیگر آیات میں بھی احکامات ملتے ہیں۔ مثلاً سِفر خروج اور سِفر احبار میں بھی ’اپنے بھائیوں‘ سے سود لینے کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے۔ (خروج: باب 22، آیات 25-26؛ احبار: باب 25، آیات 35-36) سِفر استثنا میں ہر 7ویں سال مقروضوں کے قرضوں کی معافی کے احکامات ہیں۔ (استثنیٰ: باب 15، آیات 1-8)
اسی طرح یہودی بائبل کے دوسرے حصے، ’اسفارِ انبیاء‘، میں بھی یہ احکام ملتے ہیں۔ مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سود لینے والے اور دینے والے کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (یسعیاہ: باب 24، آیات 1-2) معلوم ہے کہ بعض احادیث میں بھی ’سود کھانے والے‘ اور ’کھلانے والے‘ کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوٰ و مؤکلہ) یرمیاہ نبی کے صحیفے میں سود خوری کو لعنت کا ایک سبب قرار دیاگیا ہے۔ (یرمیاہ: باب 15، آیت 10) حزقیال نبی کے صحیفے میں خدا کے انصاف اور عدل کا قانون بیان کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ذلت اور رسوائی کے اسباب میں ایک بڑا سبب سودخوری ہے(حزقیال: باب 18 اور باب 22)۔ نحمیاہ نبی کے صحیفے (باب 5) معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی تباہی کے زمانے میں بنی اسرائیل بالعموم سودخوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔
مزید پڑھیے: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
حبقوق نبی کے صحیفے میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اوروں کے مال سے مالدار ہوتے ہیں۔ (حبقوق:باب 2، آیات 6-7) قرآن مجید نے بھی سورۃ الروم کی آیت 39 میں سود خور کی ذہنیت کی وضاحت کے لیے ’تاکہ وہ بڑھے لوگوں کے اموال میں‘ کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ یہاں سود خوار کے مال کو ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کر موٹا ہوتا ہے۔
یہودی بائبل کے تیسرے حصے، ’اسفارِ حکمت‘، میں بھی سود کی ممانعت کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً زبور 15 میں آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ذکر کی ہے کہ وہ اپنی رقم سود پر نہیں دیتے۔ سِفر امثالِ سلیمان (باب 28، آیت 7) میں ’مسرفین‘ کی ایک علامت یہ ذکر کی ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انبیائے بنی اسرائیل نے مسلسل بنی اسرائیل کو سود کی حرمت اور اس کی قباحتوں سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ سود خوری میں مبتلا ہوتے رہے، اور یہ ان پر لعنت کا ایک بڑا سبب ہوا۔
عبرانی میں سود کےلیے الفاظممتاز مسیحی محقق جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق عبرانی (یہودی) بائبل میں سود کے لیے 2 مختلف قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: نشک اور تربیت ۔ نشک میں ’کاٹ کھانے‘ کا مفہوم پنہاں ہے۔ تربیت میں بڑھوتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے مشتق ایک لفظ تربوت ہے جو نسل کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر اس میں تحقیر کا مفہوم پایا جاتا ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ معلوم ہے کہ عربی میں قرض کے مفہوم میں بھی کاٹنے کا معنی پایاجاتا ہے، اور سود کے لیے قرآن مجید نے ربا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں بڑھوتری کا مفہوم موجود ہے۔
کیا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دی تھی؟انجیلوں کی بعض آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی حرمت کا حکم منسوخ کردیا تھا (انجیل متی: باب 25، آیت 27؛ انجیل لوقا: باب 19، آیت 23) تاہم یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
اولاً: سیدنا مسیح علیہ السلام تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اس کی شرح و وضاحت کے لیے آئے تھے، جیسا کہ خود انہوں نے اپنے مشہور ’پہاڑی کے وعظ‘ میں صراحت کے ساتھ واضح کیا تھا۔
ثانیاً: جن آیات سے استدلال کیاجاتا ہے، ان میں سیدنا مسیح علیہ السلام صراحتاً سود کو جائز نہیں ٹھہراتے، بلکہ ایک تمثیل کے ضمن میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مفہوم (implication) کے ذریعے منطوق (explicit) کو منسوخ (abrogate) نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص جبکہ مفہوم کی دیگر تعبیرات ممکن ہوں۔
ثالثاً: جس یونانی لفظ tokos کا ترجمہ ’سود‘ کیا گیا ہے اس میں منافع اور بڑھوتری کا مفہوم شامل ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جائز تجارتی منافع کا ذکر کیا ہو، نہ کہ ناجائز سود کا۔ ان تمثیلات کی ایسی تعبیر بالکل ممکن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونانی لفظ بھی اصل میں کسی اور ارامی لفظ کا ترجمہ ہے کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے یونانی زبان میں نہیںِ بلکہ ارامی زبان میں یہ تمثیل بیان کی تھی۔ پس اگر اس یونانی لفظ کا مفہوم ’سود‘ ہی ہو، تب بھی محض ترجمے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کو جائز قرار دیا۔
اسلامی قانون کے ایک جزیے کی وضاحتیہاں ایک وضاحت اسلامی قانون کے ایک جزیے کے متعلق بھی ضروری ہے۔ حنفی فقہاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے ’دار الحرب‘ میں سود کو جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مختصر اشارات پیش کیے جاتے ہیں۔
اولاً: دار الحرب سے مراد ہر غیر مسلم علاقہ نہیں ہے، بلکہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ دارالاسلام سے برسرجنگ ہوں۔ جب جنگ میں فریقِ مخالف کا خون بہانا جائز ہوتا ہے، تو اس کے مال کو نقصان پہنچانا بھی جائز ہوتا ہے۔ پھر جب نقصان پہنچانا جائز ہوا تو اس کی رضامندی سے ایک درہم کے بدلے دو دراہم لینا تو بدرجۂ اولی جائز ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی ظاہری مشابہت کی بنا پر سود کہے، تو یہ غلط ہے کیونکہ درحقیقت یہ سود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
ثانیاً: اس مسئلے کا نہایت گہرا تعلق اس مسئلے کے ساتھ ہے کہ دارالاسلام کی عدالتیں کیا کسی ایسے تنازعے میں اختیار سماعت (Jurisdiction) رکھتی ہیں جو دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا؟ حنفی فقہاء اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے غیر مسلم علاقے میں، جو ہمارے ساتھ برسرجنگ نہ ہو، ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو اسے فتوی تو یہی دیا جائے گا کہ وہ اضافی رقم لوٹائے، مگر عدالت کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیاجاسکے گا، نہ ہی اسے سزا دی جاسکے گی۔ بعینہ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ساتھ دارالاسلام سے باہر زیادتی ہو اور بعد میں مجرم دارالاسلام میں داخل ہو، تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ تنازعہ دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا، اس لیے دارالاسلام کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔
غالباً یہودی احبار و فقہاء نے بھی حنفی فقہاء کی طرح رائے قائم کی تھی کہ برسرجنگ قوموں کے کسی فرد سے اس کی رضامندی سے اضافی رقم لینا سود کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، بالخصوص جب معاہدہ بنی اسرائیل کی علاقائی حدود سے باہر ہوا ہو۔ بعد میں اسے ایک عمومی رخصت سمجھا گیا کہ تمام غیر یہودیوں سے ہر جگہ سود لیاجا سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ابتدا میں تورات کی متعلقہ آیات کے حاشیے پر لکھی گئی ہوگی جو بعد میں متن میں داخل ہوگئی۔ و اللہ اعلم۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام رمضان سود سود کی حرمت قرآن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنی اسرائیل حضرت عیسی علیہ السلام سود کی حرمت مسیح علیہ السلام نے سود اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل سود کی حرمت کے متعلق قرار دیا سے باہر دیا گیا نہیں ہے میں بھی جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں کہ ذکر کی کیا ہے کے لیے کو سود گیا ہے سود کے اور اس اس لیے
پڑھیں:
بجلی
ہمارے پاس کوئی ایسا قومی رہنما موجود نہیں ہے جو پہلے قوم کو بتا سکتا کہ ہماری اصل بدحالی کتنی گھمبیر ہے۔ ملک میں بجلی کے بحران‘ اس کا حد درجہ مہنگا علاج اور آئی پی پیز وہ استعارے ہیں جس کی آڑ میںبجلی کا بحران پیدا کیا گیا۔ آج بھی حکومتی پالیسی کی وجہ سے گردشی قرضے ادا کرنا مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
Ember‘ لندن میں موجود ایک ایسا تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں دنیا کے ہر ملک کی بجلی بنانے کے ذرائع اور حکمت عملی پر غیر متعصب تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ادارہ کی رپورٹ کے مطابق‘ پوری دنیا میں کلین انرجی’’Clean Energy‘‘کا تناسب 41فیصد ہے۔ 2024ء میں سولرانرجی میں 29فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں (Wind energy) تقریباً آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سب سے کم ترین اضافہ‘ کوئلے اور ڈیزل (Fossil) سے حاصل کرنے والی توانائی کے ذرائع میں ہوا ہے۔ جو تقریباً 1.4 فیصد کے قریب ہے۔ یعنی پوری دنیا ‘ فوسل توانائی سے دور بھاگ رہی ہے اور کلین انرجی کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک کی داستان الگ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نام پر وہ کرپشن ہوئی ہے، جو ایک منفی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ کمال عیاری سے ڈیم بنانے کے کام کی رفتار کو حد درجہ شکستہ کردیا گیا ہے۔ پھر لوڈشیڈنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیاگیا، اس کی آڑمیں نجی بجلی گھر بنانے کے معاہدے شروع ہو گئے۔ جن سے ہمارے ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔
کمال دیکھئے کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی ڈیزل یا کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے‘ ایسے استعمال شدہ بجلی گھر درآمد کیے گئے جو متعلقہ ممالک میں متروک کیے جارہے تھے۔ یہ ملک سے انتقام لینے کی مونہہ بولتی تصاویر ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ باخبر حلقے حقائق جانتے ہیں ۔ مگر ہمارے نیرو تو دہائیوں سے چین کی بانسری مسلسل بجاتے آرہے ہیں۔
ایک سابقہ بجلی اور پانی کے وزیر ملے، فرمانے لگے کہ جب میں وزیر بنا تو پیغام بھجوایا گیا کہ آپ اگر نجی شعبے کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کریں تو … وزیر موصوف کاریگر آدمی تھے، ہر چیز کو بھانپ گئے ، پھر سیاست میں آ گئے۔ اور آج بھی خیر سے میڈیا پرمیرٹ اور شفافیت پر بات کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال جانے دیجیے۔
اس طرح کے سرفروش کردار ‘ ہر سیاسی جماعت میں اور ہر دور میں موجود رہے ہیں ۔ کیا آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہمارے سیاستدان اور حکمران کسی بھی بڑے آبی ڈیم کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ واپڈا کو تو ویسے ہی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جو چیئرمین بنائے جاتے ہیں اور ان کی ’’کہانیاں‘‘ آپ واپڈا ملازمین سے پوچھ سکتے ہیں۔ شاید انھیں بتا دیاجاتا ہے کہ برخوردار کسی ڈیم کو بروقت مکمل نہیں کرنا ۔ ہاں‘ ان کی طرف‘ ایک مصنوعی توجہ ضرور رکھنی ہے۔
پاکستان کا نجی شعبہ ’’کلین انرجی‘‘ نہیں پیدا کر رہا۔ ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری ایک حکومت میں تعینات ہونے والے مشیر نے اچھی خاصی کمائی کی ، ذرا سی بازپرس ہوئی تو بوریا بستر گول کر کے باہر چلے گئے۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے ‘ جو صرف ساڑھے تین سال حکومت کر پائی۔ جناب ‘ ہمارے تمام اکابرین ایک جیسے رویے کے حامل ہیں۔ شفاف حکومت‘ تبدیلی حکومت اور عوامی حکومت کے طرز عمل میں رتی برابر کا کوئی فرق نہیںہے۔
ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ بجلی کی چار گنا اور انواسنگ بھی ہوتی ہے۔ اور ہمارے سرکاری بابوؤں نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔کسی سرکاری بابو نے یہ معائنہ نہیں کیا‘ کہ اصل پیداواری صلاحیت کتنی ہے۔ آپ خود مجھے سمجھائیے کہ کیا ہماری معیشت کو ہندوستان نے تباہ کیا ہے؟ نہیں جناب! یہ کام ہم نے خود کیا ہے۔ اقتدار بھی اشرافیہ کا‘ میڈیا بھی ان کا‘ ریاستی ادارے بھی ان کے ۔Amber کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان میں سولر انرجی کو لوگوں نے مجبوراً استعما ل کرنا شروع کیا ہے کیونکہ سرکاری بجلی ناقابل برداشت حد تک مہنگی کردی گئی ۔
لوگوں نے پیٹ کاٹ کر سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر توجہ دی ہے۔ 2024 میں ہمارے ملک میں سترہ گیگا واٹ کے پینل امپورٹ کیے گئے ہیں۔ World Economic Forumنے بتایا ہے کہ چین نے سولر پینلزکی پیداوار حد سے زیادہ کر دی ہے۔ اور انھوں نے پاکستان کے عوام کی نفسیات سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چین نے ڈبل منافع کمایا۔ ایک طرف تو چین نے بجلی گھر فراہم کیے ‘ دوسری طرف‘ ہمیں سولر پینل مہیا کرنے شروع کر د یئے۔
بہرحال لوگوں میں سولر پینل کے بڑھتے ہوئے استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرکاری بجلی کا استعمال کم ہونا شروع ہوا ، سرکاری بجلی کی فروخت میں کمی آنی شروع ہو گئی۔ اس پر حکومت نے وہ بجلی جو لوگ سولر پینل سے اپنے گھروں میں پیدا کر رہے تھے، اس کی قیمت خرید مبینہ طور پر صرف دس روپے کر دی۔ عوامی رد عمل کا خوف محسوس ہوا تو بجلی کی قیمت میں سات روپے کی کمی فرما دی۔ اس کی تشہیر ایسے کی گئی جیسے کہ ملک پر ایک ایسا احسان فرما دیا گیا ہے یا عوام کے تمام مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھوں۔ بلکہ کیوں لکھوں۔ہر ایک کو بجلی کے معاملات کی اصلیت معلوم ہے۔ لوگوں میں شعور کی سطح حد درجہ بلند ہے۔ وہ اپنے غم خواروں اوررقیبوں کو خوب پہچانتے ہیں۔