سویلین کا ٹرائل کہیں بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے،آئینی بینچ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ملٹری کورٹ میں ہو، کیا فرق پڑتا ہے ؟جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے ، ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے ، وکیل فیصل صدیقی
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ جہاں دفاعِ پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے ، 9 مئی کے واقعات میں کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹ سے کتنے لوگ رہا ہوئے ؟سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 105ملزمان تھے ، جن میں سے 20ملزمان رہا ہوئے ۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 20کے بعد 19مزید رہا ہوئے ، اس وقت جیلوں میں 66ملزمان ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر فریقین کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے ، کورٹ مارشل کا بھی متبادل ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے ، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ملٹری کورٹ میں ہو کیا فرق پڑتا ہے ؟وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے ، ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے ، جہاں دفاعِ پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے ، 9 مئی واقعات میں کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے ۔سابقہ سپریم کورٹ بار کے عہدیداران کے وکیل عابد زبیری نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا بتایا گیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا اٹارنی جنرل ایسی انڈر ٹیکنگ دے سکتا ہیں جو قانون میں نہ ہو؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں مؤقف اپنایا تھا۔ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔سابقہ سپریم کورٹ بار کے عہدیداروں اور بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری آج دلائل جاری رکھیں گے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
سانحہ 9 کے دوران پولیس افسر کے دانت توڑنے کا کیس، ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلے کی ہدایت
9 مئی کیس میں ملزم رضا علی کی درخواست ضمانت پر سماعت پر دلائل دیتے ہوئے وکیل صفائی وکیل سمیر کھوسہ نے کہا کہ رضا علی اور زین العابدین پر ایک ہی پولیس افسر کا دانت توڑنے کا الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ 9 مئی پر پنجاب حکومت کی سپریم کورٹ میں جمع کردہ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
وکیل صفائی کے مطابق پولیس افسر نے دانت توڑنے کے جرم میں پہلے زین العابدین کو شناخت کیا بعد میں رضا علی کو، ایک ہی کام 2 مختلف لوگ کیسے کر سکتے ہیں؟
وکیل سمیر کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق شناخت کرنے والا پولیس اہلکار تو زخمی بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ رضا علی تو واقعہ کے وقت نجی ہوٹل میں تھا جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے جوابی دلائل میں عدالت کو بتایا کہ رضا علی کو جناح ہاؤس سے گرفتار کیا گیا، کیس کا چالان جمع ہوچکا ہے۔
اس موقع پر کیس کی سماعت کرنے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ مناسب ہوگا درخواست ضمانت واپس لے لیں، نہیں چاہتے کہ کسی بھی فریق کیخلاف کوئی آبزرویشن آئے۔
عدالت نے ٹرائل کورٹ کو 4 ماہ میں فیصلے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی، تاہم وکیل صفائی کا مؤقف تھا کہ 4 ماہ میں فیصلے کے حکم پر تحفظات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: سانحہ 9 مئی کے ملزمان کی ضمانتیں منسوخ کرنے کے لیے دائر مقدمات مقرر
بعد ازاں چیف جسٹس نے سمیر کھوسہ، سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کو چیمبر میں بلا لیا اور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احمد رضا گیلانی کو بھی چیمبر آنے کی ہدایت کی۔
جسٹس نے آگاہ کیا کہ تمام کیسز کا حکم نامہ تحریر کر رہے ہیں جو شامل کروانا یا نکلوانا ہو دونوں کروا سکتے ہیں۔
عدالتی ہدایت پر وکلا چیف جسٹس کے چیمبر روانہ ہو گئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سانحہ 9 مئی سپریم کورٹ