Express News:
2025-03-04@23:01:20 GMT

جاپان کا دورہ اور خواتین کے تھانے

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

یہ 1998کی بات ہے، میں اس وقت تک یورپ کے کئی ممالک دیکھ چکا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بھی کئی ملکوں کی سیر ہوچکی تھی، اس لیے دور دراز کے اہم ممالک دیکھنے کی خواہش اور اشتیاق موجود تھا۔ چنانچہ جب جاپان انٹرنیشنل کو آپریشن کی تنظیم JICA کی طرف سے جاپان میں تین ہفتے کے ایک کورس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو میں نے اسے بخوشی قبول کرلیا۔ سیمینار کا عنوان یا تھیم تھا’’پاکستان میں خواتین کے پولیس اسٹیشن‘‘اس میں شرکت کے لیے پاکستان سے پانچ رکنی وفد کا انتخاب کیا گیا جن میں وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کے بی رند، ڈی آئی جی فیصل آباد طارق کھوسہ، راقم (اسٹاف آفیسر ٹو پرائم منسٹر) اور دو جونئیر (سب انسپکٹر رینک کی) خواتین پولیس افسران شامل تھیں۔

میں نے اپنی presentation تیار کرنے کے لیے کافی محنت کی، اور مختلف جگہوں پر قائم ویمن پولیس اسٹیشنز کا وزٹ بھی کیا اور وہاں تعیّنات خواتین پولیس افسران سے ملاقاتیں بھی کیں۔ دراصل بے نظیر بھٹو صاحبہ جب وزیراعظم تھیں تو انھوں نے کسی مشیر کے کہنے پر خواتین کے علیحدہ پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا اعلان کردیا اور اسے خواتین کے حقوق کے تحفّظ کی جانب ایک تاریخی قدم قرار دیا۔ چاروں صوبائی دارلحکومتوں کے علاوہ ایبٹ آباد اور وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی ویمن پولیس اسٹیشن قائم کردیے گئے، اور اکثر جگہوں پر تو پرائم منسٹر بے نظیر صاحبہ نے ان کا افتتاح خود کیا اور اس موقع پر متعلقہ آئی جی صاحبان نے خواتین کے علیحدہ تھانوں کی اہمیّت اور افادیّت بتاتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے ملادیے اور اسے ایک تاریخ ساز کارنامہ قراردیا۔

میں نے جب خواتین کے تھانوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کیا تو بڑے ہوش ربا حقائق سامنے آئے۔ لاہور کے کسی بھی تھانے میں ایک سال میں ایک ہزار سے بارہ تیرہ سو تک کیس درج ہوتے ہیں، مگر ویمن پولیس اسٹیشن لاہور میں سال بھر میں درج ہونے والے کیسوں کی تعداد صرف نو (9) نکلی۔ ویمن پولیس اسٹیشن کی انچارج افسر(ایس ایچ او) اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ میں نے پوچھا کہ خواتین victims اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی رپورٹ درج کرانے آپ کے پاس کیوں نہیں آتیں؟ تو انھوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بتایا ’’سر! مظلوم خواتین بھی جانتی ہیں کہ جرم کا ارتکاب کرنے والے تو مرد ہیں، مجرموں کو ریڈ کرکے گرفتار کرنا لیڈی پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔

 اس لیے وہ ہمارے پاس کیس درج کرانے کے لیے بھی نہیں آتیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خواتین اور ان کے وارثوں کو یہ اعتماد نہیں ہے کہ صرف خواتین پولیس افسر اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرسکتی ہیں یا انھیں انصاف دلا سکتی ہیں‘‘۔ پھر ایک توقف کے بعد وہ بولیں ’’سر! خواتین کے علیحدہ تھانے بنانے کی قطعاً کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں ہے۔ عام تھانوں میں خواتین پولیس افسران کے ونگ قائم کیے جائیں اور کچھ حسّاس معاملات میں خواتین افسران مظلوم خاتون سے حقائق دریافت کرلیا کریں اور خواتین ملزمان کی پوچھ گچھ (interrogation) بھی لیڈی پولیس افسران کرلیا کریں‘‘۔

دوسرے صوبائی دارلحکومتوں سے اعداد وشمار معلوم کیے تو صورتِ حال اس سے بھی زیادہ مایوس کن نکلی۔ اسلام آباد میں ایک سال میں سات اور ایبٹ آباد میں چار کیس درج ہوئے تھے۔ کہیں بھی تعداد دس کو نہ چھو سکی۔ لہٰذا میں نے انھی حقائق کی روشنی میں اپنی پریذینٹیشن تیار کی اور واضح طور پر لکھ دیا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو غلط ثابت ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی ویمن پولیس اسٹیشن فعال نہیں ہے۔

اب آئیں دورے اور وفد کی جانب، طارق کھوسہ صاحب ایک پڑھے لکھے اور شائستہ آدمی ہیں، ان کے ساتھ پرانا تعلّق اور بے تکلّفی تھی۔ کے بی رند، رندی مزاج کے کھلے ڈھلے شخص تھے، اس لیے ان کے ساتھ بھی بہت جلد بے تکلّفی اور دوستی ہوگئی۔ جائیکا نے ہم تینوں کو سینئر سمجھ کر بزنس کلاس کے ٹکٹ دیے اور دونوں خواتین سب انسپکٹروں نے اکانومی کلاس میں سفر کیا۔ ہم اسلام آباد سے اڑ کر بینکاک کے ہوائی اڈے پر جا اترے۔ وہاں سے پرواز تبدیل کی اور ایک طویل اور تھکادینے والے سفر کے بعد ہم علی الصبّح ٹوکیو کے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔

جائیکا کے نمایندوں نے ہمیں ریسیو کیا۔ ٹوکیو میں ہمیں ایک فور اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ساتھ ہی دوسرے روز کا پروگرام بھی ہاتھوں میں تھمادیا گیا۔ دوسرے روز ہم نے وقت پر اٹھ کر ناشتہ کیا اور تیار ہو کر ہوٹل کی لابی میں پہنچ گئے جہاں ایک خاتون گائیڈ موجود تھیں جو انگریزی بول اور سمجھ لیتی تھیں۔ جب وفد کے تمام ارکان پہنچ گئے تو اس نے نام پکارے، حاضری لگائی اور نعرہ لگایا کہ ’’میرے پیچھے پیچھے آئیں‘‘ چنانچہ ہم دس منٹ تک اس کی راہنمائی میں چلتے ہوئے ایک ایسے انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے جو جاپان کا سب سے بڑا انڈرگراؤنڈ ریلوے اسٹیشن سمجھا جاتا ہے اور جہاں سے ایک دن میں تیس لاکھ افراد مختلف ٹرینوں پر سوار ہوتے اور اترتے ہیں۔ شِخجوکو نام کے اس ریلوے اسٹیشن پر انسانوں کا اژدھام تھا، کھوّے سے کھوّا چھل رہا تھا مگر ہر شخص ڈسپلن، شائستگی اور کرٹسی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ معمولی سی بھی ہڑبونگ یا بدنظمی دیکھنے کو نہ ملی۔

اگر کوئی شخص دوسرے سے ایک انچ آگے ہے تو پیچھے کھڑے شخص نے یہ فاصلہ مٹانے کی کوشش نہیں کی اور پیچھے ہی چلتا رہا۔ کسی ایک شخص میں بھی دوسروں کو کہنی مارنے یا آگے بڑھ کر پہلے سوار ہونے کی خواہش نظر نہ آئی۔ تین چار اسٹیشنوں کے بعد ہماری گائیڈ نے ہمیں اترنے کا اشارہ کیا۔

پلیٹ فارم سے اتر کر وہ پھر پیدل چل پڑی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے دس منٹ چلنے کے بعد ہم جائیکا کے ہیڈ کوارٹرز میں پہنچ گئے۔ جہاں بہت سے ملکوں کے لوگ مختلف کورسز کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ پہلے تین روز سب کے لیے مشترکہ تھے جن میں شرکاء کو جاپان کی تاریخ، ثقافت اور جدید دور کی ترقّی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ زیادہ تر ماہرین (ان میں سے بہت سے تاریخ اور ثقافت کے پروفیسر تھے) نے جاپانی زبان میں تقاریر کیں اور مترجم نے ان کا ترجمہ کیا۔

مشترکہ کلاسوں کے بعد اسی عمارت کے ایک کانفرنس روم میں ہمارا سیمینار شروع ہوا جس میں کھوسہ صاحب نے ویمن پولیس اسٹیشنز کو بینظیر حکومت کا ایک عظیم کارنامہ قراردیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ کھوسہ صاحب کے نزدیک میزبان ملک کے دیے گئے موضوع کے بارے میں مثبت رائے ہی دینی چاہیے اور وہ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ڈِس کرٹسی سمجھتے ہیں۔

چنانچہ جب میں نے اپنی پریذنٹیشن میں ویمن پولیس اسٹیشنوں کو ایک ناکام تجربہ قرار دیا تو کھوسہ صاحب بہت پریشان ہوئے۔ اعداد وشمار جو ان کے لیے بھی حیران کن تھے، سن کر وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ’’ اچھا تو صورتِ حال اتنی مایوس کن ہے، میں تو سمجھتا تھا کہ اب خواتین victims کی پہلی چوائس خواتین کے تھانے ہوںگے، مگر وہاں تو کوئی جاتا ہی نہیں۔۔۔ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی‘‘۔

اُن کے ساتھ دوسری بار اختلاف رائے کا موقع اُس وقت آیا جب میں نے محسوس کیا کہ وہ غالباً جاپانی سسٹم کی اور ان کی تہذیب اور کلچر کے ہر پہلو کی تعریف وتوصیف کرتے ہیں ،ان کے مثبت پہلوؤں کی ستائش کرنے کے ساتھ پاکستان کے منفی پہلوؤں کا بھی ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس پر میں نے ان کے سامنے اپنے تحفّظات کا اظہار کیا اور پھر اپنی presentation کے دوران وطنِ عزیز کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا، جس سے پاکستان کے بارے میں میزبانوں کا تاثر بہتر ہوا۔

دونوں لیڈی پولیس افسروں نے نہ تو کوئی تیاری کی تھی اور نہ ہی وہ انگریزی بول سکتی تھیں، اس لیے انھوں نے مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے رکھی مگر گروپ لیڈر کے بی رند صاحب نے انھیں ایک خصوصی ٹاسک تفویض کردیا، وہ اس طرح کہ ایک شام ہم ہوٹل واپس پہنچے تو رند صاحب نے لابی میں ان سے کہا ’’ بی بی آپ بھی کچھ سوال کیا کریں‘‘ انھوںنے کہا سر! ہمارے لیے مشکل ہوگا، ہم سوال نہیں کر سکتیں۔ ایک دو اور سوالوں کے جواب بھی انھوں نے نفی میں دیے تو رند صاحب نے پوچھا ’’کپڑے استری کرلیتی ہو؟‘‘ دونوں نے اثبات میں جواب دیا تو رند صاحب نے کہا ’’ٹھیک ہے پھر کپڑے استری کرنے کا ٹاسک سنبھال لیں‘‘ اس کے بعد ہر شام رند صاحب کے کمرے سے کپڑوں کی گٹھری بیبیوں کے کمرے میں پہنچنے لگی۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ویمن پولیس اسٹیشن خواتین پولیس پولیس افسران کھوسہ صاحب خواتین کے انھوں نے پہنچ گئے کے ساتھ کیا اور میں ایک نہیں ہے کے لیے کے بعد کی اور اس لیے

پڑھیں:

مصطفیٰ قتل کیس کی تحقیقات میں شاہ زین مری کا نام بھی جُڑ گیا

کراچی میں منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ سی آئی اے ذرائع کے مطابق شاہ زین مری بھی منشیات کی خریداری میں ملوث نکلا۔ گرفتار ملزم ساحر حسین کی تفتیش کے دوران شاہ زین مری کا نام سامنے آیا ہے، جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم اس معاملے کی مزید گہرائی سے چھان بین کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ کراچی کے پوش علاقوں میں منشیات کے دھندے میں خوشحال گھروں کے نوجوان بھی ملوث پائے گئے ہیں، جن کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر شکنجہ کس رہے ہیں۔

گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ قتل کیس ٹھیک سے ہینڈل ہوا تو منشیات کا خاتمہ ہوگا، مصطفیٰ کیس میں بڑے بڑے نام سامنے آئیں گے، ان کے پیچھے جن طاقتوں کا ہاتھ ہے وہ بہت با اثر ہیں، مجھے بھی جان سے مارنے کی ای میل بھیجی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ عمران فاروق جیسا حال ہوگا۔

شاہ زین مری کے پانچ گارڈز کا دو روزہ ریمانڈ منظور
کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں شہری پر شاہ زین مری اور ان کے گارڈز کے تشدد کے کیس میں گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں اہم سماعت ہوئی، جہاں پولیس نے ان کے گرفتار پانچ سیکیورٹی گارڈز کو پیش کردیا۔ گارڈز کے وکیل کا کہنا ہے کہ صرف میڈیا کی وجہ سے ملازمین اور باورچی کو گرفتار کیا گیا۔ شاہ زین مری کوئٹہ میں بیٹھا ہے۔ سسٹم میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ شاہ زین کو گرفتار کرے۔

تفتیشی افسر نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ کیس کی مکمل تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کا فرانزک کرانا ضروری ہے۔

عدالت میں ملزمان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ جن افراد کو پیش کیا گیا ہے، وہ سی سی ٹی وی ویڈیو میں واضح نظر آرہے ہیں، لیکن اصل ملزم تک پولیس اب تک نہیں پہنچ سکتی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ صرف میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے ان ملازمین کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ اصل ملزم شاہ زین مری کو گرفتار کرنے کی جرات کوئی نہیں کر سکتا۔

وکیل نے کہا کہ باورچی ملازمین کو گرفتار کرلیا گیا جو اس وقت وہاں موجود بھی نہیں تھے۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ شاہ زین مری کوئٹہ میں موجود ہے، لیکن اسے گرفتار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر شاہ زین خود بھی عدالت میں آکر کھڑا ہوجائے تو پولیس اسے ہاتھ نہیں لگائے گی۔

عدالت نے پولیس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جبکہ پانچوں سیکیورٹی گارڈز کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔

مرکزی ملزم شاہ زین کے اہلِ خانہ کا ردعمل
شہری پر تشدد کے مرکزی ملزم شاہ زین کے اہلِ خانہ کا ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعہ کو یکطرفہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، شاہ زین اور ساتھیوں کو برکت سومرو نے گالیاں بکیں جو قبائلی معاشرے میں برداشت نہیں ہوتیں۔

اہل خانہ کا یہ بھی کہنا ہے پولیس واقعہ کے اہم پہلو کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ شاہ زین کھانے کے بعد رخصت ہو رہے تھے، ایک گاڑی سڑک کے درمیان کھڑی تھی، ڈرائیور نشے کی حالت میں فون پر مصروف تھا، شاہ زین مری نے ہارن بجایا۔

خاندانی ذرائع کے مطابق گاڑی میں موجود برکت سومرو نے راستہ نہ دیا، برکت سومرو نے گالم گلوچ اور بدتمیزی شروع کر دی، ردعمل کے طور پر جو ہوا، وہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے۔

خاندانی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوابزادہ شاہ زین اور ان کے ساتھیوں کے پاس لائسنس یافتہ اسلحہ موجود تھا، مگر ان لوگوں نے جوابی کارروائی سے گریز کیا، پولیس نے واقعے کے ایک اہم پہلو کو چھپانے کی کوشش کی۔

واقعے کا پس منظر

کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں 19 فروری کی رات شاہ زین مری اور ان کے مسلح گارڈز کے ہاتھوں ایک شہری اور اس کے دوست پر بہیمانہ تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ واقعہ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ملزم شاہ زین مری کے چار گارڈز سمیت سات ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے گارڈز کی شناخت غوث بخش، جلاد خان، علی زین اور حسن شاہ کے نام سے ہوئی ہے۔ ڈی آئی جی ساؤتھ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔

متاثرہ شہری نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ اور اس کا دوست کھانے کے لیے آئے تھے جب ایک گاڑی نے پیچھے سے آکر بدتمیزی کی اور ٹکر ماری، جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس نے سوال اٹھایا کہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کب ہوگا؟

پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد ملزم شاہ زین مری بلوچستان فرار ہوگیا۔ ڈیفنس خیابانِ فیصل پر پولیس ناکہ بندی کے دوران شاہ زین اپنی گاڑی چھوڑ کر فرار ہوا، جسے بعد میں تحویل میں لے لیا گیا۔ گاڑی اس وقت درخشاں تھانے میں موجود ہے جبکہ شاہ زین مری کی گرفتاری کے لیے پولیس نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کر لیا ہے۔

بلوچستان پولیس کا بیان

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ شاہ زین مری کی بلوچستان میں موجودگی سے متعلق کہنا قبل از وقت ہے، شاہ زین مری سے متعلق محکمہ داخلہ سندھ کے مراسلے کا علم نہیں ہے، تصدیق نہیں کرسکتے شاہ زین مری کون سے علاقے میں چھپا ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان نے سندھ حکومت کے مراسلے سے متعلق آگاہ نہیں کیا، جس ضلع میں نشاندہی ہوگی محکمہ داخلہ بلوچستان کی ہدایت پر کارروائی ہوگی۔

شاہ زین مری بھی منشیات کی لین دین میں ملوث

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفٰی قتل کیس کے مرکزی کردار ارمغان اور ساحر سے تفتیش کے دوران شاہ زین مری کا نام بھی سامنےآگیا۔ منشیات کی لین دین میں شاہ زین مری بھی ملوث نکلا۔

سی آئی اے ذرائع کے مطابق شاہ زین مری منشیات کی خریداری میں ملوث ہے گرفتار ملزم ساحر حسین کی تفتیش میں شاہ زین مری کا نام ہے جس کے بعد ٹیم اس معاملے کی مزید گہرائی سےتفتیش کررہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، فشریز میں گیس لیکیج سے 5 خواتین سمیت 15 افراد کی حالت غیر
  • جاپان: نصف صدی کی بدترین جنگل کی آگ بے قابو، 1 شخص ہلاک
  • اشتہاری ملزم ارمغان کے خلاف اب تک کتنے مقدمات درج ہوچکے ہیں؟
  • چین فروری 2025
  • کراچی، پولیس خواتین کی تمیز بھول گئی، دو گھنٹے تک خاتون کو سڑک پر ہراساں کیا گیا
  • لاہور میں خواتین بھکاری گروہ چلانے والا سرغنہ گرفتار
  • مصطفیٰ قتل کیس کی تحقیقات میں شاہ زین مری کا نام بھی جُڑ گیا
  • کراچی، راہ چلتی خواتین کو ہراساں کرنے والا ملزم پولیس کے ہاتھوں گرفتار
  • سماج کے کمزور طبقات اور جینڈر بجٹنگ