غزہ کی گتھی کون سلجھائے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
غزہ میں امداد بند ہونے کے بعد انسانی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں 42 روز توسیع کی اسرائیلی تجویز مسترد کردی۔ اسرائیل کے اتحادی جرمنی سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی ہے۔ مصر، قطر، اور اردن نے اسرائیل کی جانب غزہ میں امداد کا داخلہ بند کرنے کو جنگ بندی اور انسانی قوانین کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کو قبول کرنے سے انکار کے بعد امدادی ٹرکوں اور گاڑیوں کو غزہ جانے سے روک دیا ہے۔ کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا پہلا ختم ہوگیا لہٰذا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے، تاکہ مستقل امن قائم ہوسکے۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم کے مطابق جنگ بندی کے اصل معاہدے کے مطابق سیز فائر کے دوسرے مرحلے کے لیے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے، جب کہ پہلا مرحلہ ہفتے کو ختم ہو چکا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ موجودہ امن ڈیل غزہ میں جنگ کا اختتام نہیں بنے گی۔
فلسطینیوں کو اپنی سرزمین میں جینے کی حتمی آزادی ملے بغیر ایسے معاہدات نقل مکانی، بھوک، موت اور اُن لامحدود صدمات کا علاج نہیں جو فلسطینیوں نے پچھلے 75 سالوں میں جھیلے اور مزید طویل عرصے تک برداشت کرتے رہیں گے۔ ریسکیو کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے پاور پلانٹ اور صفائی ستھرائی کے نظام کو چلانے اور ملبے کو صاف کرنے اور ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کے لیے کافی ایندھن ضرورت پڑے گا، یوں پٹی کے تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیرنو کا طویل کام شروع ہو جائے گا۔ جس وقت معاہدہ پہ بات چیت کا آغاز ہوا تو اسرائیل اور حماس کے درمیان طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب تھا۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے لیے حماس کے اصل مطالبات میں سے ایک یہ تھا کہ اسرائیلی فوجیں غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں، جب کہ جنگ بندی کی شرائط یہ بتاتی ہیں کہ اسرائیلی افواج زیادہ مستقل طور پر سرحد کے ساتھ صرف 40 کلومیٹر لمبے اور پانچ سے 13 کلومیٹر چوڑے بفر زون میں رہیں گی یعنی فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی فوج کی مسلسل موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ اسے بشمول گھروں یا کھیتوں کے شہری زندگی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال، اس معاہدے سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ یقینا ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ جنگ بندی ایک نئے مرحلے کے آغاز کی علامت ثابت ہو گی، بلاشبہ یہ خوش آیند ریلیف ضرور ہے لیکن ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت کے علاوہ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کے ساتھ، غزہ کی تباہی لاکھوں افراد کو کئی قسم کے صدمات سے دوچار کر گئی، آگے بڑھتے ہوئے، بنیادی مسئلہ یہ ہوگا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی کو برقرار نہیں پائیں گے، وہ انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کے یرغمال ہیں، ان کی ممکنہ طور پر محدود وقتی رضامندی اب زیادہ تر واشنگٹن میں ٹرمپ کی افتتاحی تقریب کو خوشگوار بنانے کی مساعی تھی۔
معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی نیتن یاہو مبینہ طور پر ناراض وزراء کو یقین دہانی کر رہے ہیں کہ جنگ بندی عارضی ہوگی، ان کا حماس کی شرائط پر پوری طرح عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، کہا جاتا ہے کہ اس نے سخت گیر اتمار بین گویر سے وعدہ کیا، جنھوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا اور بیزیل سموٹریچ، جو مستعفی ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں، کہ وہ جلد ہی جنگ دوبارہ شروع کر دیں گے۔
امریکا اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو غزہ میں اقتدار سونپا جائے، لیکن حماس کی مقبولیت فلسطینی عوام میں اب بھی زیادہ ہے۔ غزہ میں مستقبل کے انتظامات پر قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس سے پہلے تین اہم نظریات زیر بحث تھے: شروع میں صہیونی حکام کی حکمت عملی ’’نہ فتح، نہ حماس‘ پر مبنی تھی، جس کے تحت وہ یا تو غزہ کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے یا اسے تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ امریکی منصوبے ڈیل آف سینچری کے تحت فلسطینیوں ی کو بے دخل کر کے علاقے کو ایک معاشی زون میں تبدیل کرنا تھا۔
یورپی یونین کی تجویز میں بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو حماس کے متبادل کے طور پر اقتدار دینے کی حمایت شامل تھی۔ اس منصوبے کو پیرس اور ریاض کی حمایت حاصل تھی، جب کہ فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو حماس کی جگہ لانا امریکی منصوبہ تھا جس کے تحت غزہ کے شہری اور انتظامی معاملات بین الاقوامی فورسز کے تعاون سے چلایا جانا طے پایا تھا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاوس میں اپنے دوسرے دور اقتدار کے آغاز سے ایک روز قبل شروع ہوا تھا۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’’میرے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے کہ (مشرق وسطیٰ میں) امن برقرار رہے گا۔‘‘ امریکی صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے ہمسایہ ملک مصر اور اردن منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے اسے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ کی جنگ سے تباہ ہونے والی غزہ کی پٹی 2007 سے اسرائیلی ناکہ بندی کے تحت ایک فلسطینی علاقہ ہے۔
موجودہ جنگ بندی کسی پائیدار امن کی ضمانت نہیں دیتی۔اسی طرح علاقے کی مستقبل کی حکمرانی کے بارے میں اور بھی کم وضاحت ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس کے لیے جنگ کے بعد کوئی کردار نہیں ہو سکتا، جس نے 2007 سے غزہ پر حکمرانی کی ہے ۔غزہ اس وقت ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اسرائیل کی جنگی جارحیت نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس میں پانی، بجلی، اسپتال اور خوراک کی قلت نمایاں ہے۔
توقع تھی کہ جنگ بندی سے امدادی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں میں پہنچنے اور عوام کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کا موقع ملے گا، لیکن ایسا اسرائیل نے نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ اسرائیل کا جنگی جنون ہمیشہ سے خطے کے امن کے لیے ایک خطرہ رہا ہے اور اسرائیل چونکہ ایک غاصب ریاست ہے تو بطور غاصب ریاست اس کا ہمیشہ سے یہ چلن رہا ہے کہ جارحیت کر کے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو دبا دے۔ غزہ کی جنگ بندی بلاشبہ ایک خوش آیند قدم ہے، جس سے خطے میں امن قائم کرنے کی امید پیدا ہوئی ہے، تاہم اصل کامیابی تب ہوگی جب مسئلہ فلسطین کا مستقل حل تلاش کیا جائے گا اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق دیے جائیں گے۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے اور اسے امن معاہدے میں تبدیل کرنے کے لیے مزید سفارتی اور سیاسی کوششیں جاری رکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ، فلسطینی عوام کو اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا تاکہ ایک پرامن اور خوشحال مستقبل ممکن ہو سکے۔ بدقسمتی سے، عالمی برادری بالخصوص مغربی ممالک اسرائیلی جارحیت پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مسلم ممالک اسرائیل کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کر کے اس ظلم کو مزید تقویت دیتی رہی ہیں، جب کہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کے لیے ہی اسرائیلی فوج ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کرتی چلی جا رہی ہے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر بربریت آج بھی جاری ہے۔
فلسطین، اسرائیل جنگ بندی معاہدہ یقیناً ایک پائیدار عمل کی ضمانت ہونا چاہیے، جنگ بندی کا معاہدہ گو تحریری شکل پاچکا لیکن بہت سے سوالات کا ریشم الجھا ہوا ہے۔مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالنا ناگزیر ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی بنا پر فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس سے امن کے قیام میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ غزہ پر عائد اقتصادی پابندیاں برقرار ہیں، جن کی وجہ سے وہاں کے عوام کی مشکلات میں کمی آنے میں وقت لگ سکتا ہے کیونکہ غزہ کی دوبارہ تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل جنگ بندی کے کہ جنگ بندی اسرائیل کی اسرائیل کے کے درمیان حماس کی حماس کے کے ساتھ نہیں ہو کے تحت غزہ کی کے لیے کے بعد
پڑھیں:
امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے، حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہوگا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ 20اپریل کو اہل فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد میں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہوگا، 22 اپریل کو پورے پاکستان میں ہڑتال کی جائے گی، دنیا بھر کی اسلامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے میں ہیں، یقین ہے کہ اسی روز عالمی سطح پر بھی متفقہ احتجاج کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان میں غزہ مارچ کر رہے ہیں۔ امریکا اسرائیلی دہشت گردی کی سپورٹ بند کرے، غزہ میں جنگ بندی کرائے۔ پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کہتا ہوں امریکا سے نہ ڈریں۔ ملک کی حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے لائن لگا کر نہ کھڑے ہوں۔ قوم سے ان تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہیں جس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جانتے ہیں ملک میں مشکل حالات ہیں، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس کے باوجود بھی ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ غزہ میں اپنے بہن بھائیوں کے لیے آواز اٹھائیں، پورا کے پی اور شمالی پنجاب اسلام آباد مارچ میں شرکت کرے، جنوبی پنجاب کے عوام جمعہ کو ملتان پہنچیں، تمام تاجر تنظیمیں ہڑتال کے لیے متفق اور متحد ہو جائیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
امیر جماعت نے کہا کہ 22اپریل کو آب پارہ سے امریکی ایمبیسی کی طرف مارچ ہو گا، حکومت جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو روکنے کی کوشش نہ کرے، فیملیز اور بچوں کے ساتھ احتجاج کیا جائے گا۔ وائٹ ہاس کے سامنے احتجاج ہوسکتا ہے تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر احتجاج کیوں نہیں ہوسکتا؟ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کر ے گا،اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تواس سے اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ پوری قوم غزہ کے عوام کے لیے نکل رہی ہے،لاہور اور کراچی میں تاریخی احتجاج ہوئے، لوگ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس نفرت کی زد میں پاکستان میں موجود امریکا کے غلام بھی آچکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے اسرائیل غزہ میں بچوں کا نشانہ لے کر ان کو قتل کررہاہے یہ سفاک دشمن ہے ان کو خون پسند ہے نہتے لوگوں پر بم گرانا پسند ہے،اس سب میں امریکہ اسرائیل کی سرپرستی کررہاہے،امریکہ کی تعمیر میں ریڈ انڈین کا خون شامل ہے،امریکہ نے جاپان پر بم پھینکے ہیں، امریکہ دنیا بھر میں حکومتوں کے تختے الٹتا ہے، امریکہ نے الجزائر میں جمہوری حکومت کو بننے نہیں دیا، حماس کی حکومت غزہ میں بننے نہیں دی گئی،اسرائیل کے خلاف حماس قانونی حق استعمال کررہاہے قابض فوج سے اسلحہ سے لڑا جاسکتا ہے، حماس کو کہا جارہاہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے یہ کبھی نہیں ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مسلم حکمرانوں کو سامنے آنا ہوگا، اسرائیل کو امریکہ اور مسلم حکومت نے طاقت دی ہے، جنگ میں ہارنے کے بعد وہ بچوں کو مار رہا ہے۔ پاکستان لیڈنگ رول ادا کرے، فوجی سطح پر بھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی ورنہ سب کا نمبر آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں امریکہ کی مذمت کیوں نہیں کررہی ہیں جو پاکستانی اسرائیل گئے، ان کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ہے، ہمیں بتایا جائے،حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خون کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔ فلسطینیوں کی مدد کریں گے تو اللہ ہماری مدد کرے گا، اگر ہم احتجاج چھوڑ دیں تو اسرائیل نواز قوتوں کی مدد ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان، ترکی اور سعودی عرب پر مزید دبا ڈالا جا سکتا ہے، اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں انھیں بھی اپیل کی جائے کہ صہیونی ریاست سے تعلقات منقطع کریں۔