سنہ 2050 تک دنیا کے کتنے فیصد بالغ موٹاپے کا شکار ہوچکے ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
سنہ2050 تک دنیا بھر کے تمام بالغوں میں سے نصف سے زیادہ اور ایک تہائی بچوں، نوعمروں اور نوجوان بالغوں کے بہت زیادہ موٹے ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: موٹاپا اور شوگر کا خطرہ، چاول پکانے سے پہلے ضرور کریں یہ کام
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ نتائج 200 سے زائد ممالک پر محیط دی لانسیٹ جریدے میں شائع ہونے والے عالمی اعداد و شمار کے ایک نئے مطالعے میں سامنے آئے ہیں۔
محققین نے خبردار کیا ہے کہ اس دہائی کے بقیہ حصے میں خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں موٹاپے کی سطح میں تیزی سے تیزی آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ حکومتیں فوری کارروائی کرتے ہوئے اس بڑے سانحے کو روک لیں۔سنہ2021 تک دنیا کی تقریباً نصف بالغ آبادی یعنی ایک ارب مرد اور ایک ارب 11 کروڑ خواتین جن کی عمر 25 سال یا اس سے زیادہ تھی بہت زیادہ موٹاپے کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔
ان حالات کے ساتھ رہنے والے مردوں اور عورتوں دونوں کا تناسب سنہ 1990 سے دگنا ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیے: کیا موٹاپا، ذیابیطس اور سگریٹ نوشی ڈیمنشیا کی وجہ بن سکتے ہیں؟
اگر رجحانات جاری رہے تو سنہ 2050 تک زیادہ وزن اور موٹے بالغوں کی عالمی شرح مردوں کے لیے تقریباً 57.
تعداد کے لحاظ سے سنہ 2050 میں چین (627 ملین)، بھارت (450 ملین) اور امریکا (214 ملین) زیادہ موٹے لوگوں کی سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہوں گے۔
تاہم آبادی میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ ماہرین صحارا افریقہ میں تعداد 250 فیصد سے بڑھ کر 522 ملین تک پہنچنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
خاص طور پر نائیجیریا نمایاں ہے جہاں موٹے افراد کی تعداد 3 گنا بڑھ جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے یعنی یہ تعداد سنہ 2021 میں 36.6 ملین سے سنہ 2050 میں 141 ملین تک ہوجائے گی۔ اس سے یہ بالغوں کی چوتھی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن جائے گا جو زیادہ وزنی (اوورویٹ) یا موٹے ہیں۔
مزید پڑھیں: بچپن کا موٹاپا صحتمندی نہیں مرض ہے
ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مطالعہ وزن میں کمی کی نئی ادویات کے اثرات کو مدنظر نہیں رکھتا ہے اور وہ مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
اس تحقیق کی سربراہ امریکا میں واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن (IHME) سے تعلق رکھنے والی پروفیسر ایمینویلا گاکیدو ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اوورویٹ اور موٹاپے کی عالمی وبا ایک بڑا المیہ اور بڑی معاشرتی ناکامی ہے۔
سنہ1990 اور سنہ 2021 کے درمیان بچوں اور کم عمر نوجوانوں میں موٹاپے کی شرح (8.8 فیصد سے 18.1 فیصد تک) اور کم عمر بالغوں (25 سال سے کم عمر 9.9 فیصد سے 20.3 فیصد تک) میں دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ سنہ 2050 تک ہر 3 میں سے ایک نوجوان متاثر ہوگا۔
رپورٹ کی شریک مرکزی مصنف اور آسٹریلیا میں مرڈوک چلڈرن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر جیسیکا کیر کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار آنے والے سالوں میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کے لیے ایک حقیقی چیلنج پیش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: موٹاپا ایک بیماری، چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ابھی عمل کریں تو بچوں اور نوعمروں کے لیے عالمی موٹاپے کی مکمل منتقلی کو روکنا اب بھی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ موٹاپے کی نسل در نسل منتقلی سے بچنے اور صحت کے سنگین حالات اور آنے والی نسلوں کے لیے سنگین مالی اور سماجی اخراجات کی لہر کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اوور ویٹ بچوں میں موٹاپا ٹین میں موٹاپا سنہ 2050 میں موٹے افراد کتنے فربہ افراد موٹاپا موٹاپے کا شرحذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فربہ افراد کا کہنا ہے کہ کی پیش گوئی کے لیے
پڑھیں:
ماہ رمضان میں کتنے گھٹنے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوگی؟ شیڈول جاری
نصیرآباد (نیوز ڈیسک) ماہ رمضان میں کتنے گھٹنے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوگی ، اس حوالے سے شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماہ رمضان کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول جاری کردیا گیا۔
ایکسیئن گرڈاسٹیشن نے بتایا کہ شہری بجلی فیڈرز سے ساڑھے 13 گھنٹے بجلی فراہم ہوگی، جن میں ڈیرہ، ایکسپریس فیڈر،سٹی فیڈر، نیومیرحسن فیڈر شامل ہیں۔
تینوں فیڈرز سے افطار اور تراویح کیلئے 6:30 سے رات 12:00 تک بجلی فراہم ہوگی جبکہ سحری کیلئے 3:30 سے صبح 6:00 بجے تک بجلی فراہم ہوگی۔
صبح10 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک بجلی فراہم کی جائے گی اور رمضان میں عوام کو2 گھنٹے بجلی کی بندش میں ریلیف دیا جائے گا۔
شہری فیڈروں پر رمضان میں ساڑھے 10گھنٹے بجلی کی بندش جاری رہے گی۔
خیال رہے رمضان کے مقدس مہینہ میں سحری اور افطاری کے اوقات میں بجلی اورسوئی گیس کی لوڈشیڈنگ سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
8 مزیدپڑھیں:ممالک سے مزید 40 پاکستانی بے دخل، کون کون سا ملک شامل ہے؟