جویریہ سعود نے ماؤں کو بیٹیوں کے حوالے سے ضروری مشورہ دے ڈالا
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
ٹی وی اداکارہ اور میزبان جویریہ سعود نے ماؤں سے کہا ہے کہ لوگوں سے ملیں جلیں اور کم عمری سے ہی اپنی بچیوں کے رشتے تلاش کرنا شروع کردیا کریں۔
نجی چینل کو انٹرویو میں جویریہ سعود نے کہا کہ اگر گھر میں بیٹی کنواری رہ جائے اور شادی کی عمر نکل جائے تو اس میں قصوروار ماں بھی ہوتی ہے۔
ادکارہ نے کہا کہ عام مشاہدے کی بات ہے، بہت سی مائیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوتی ہیں کہ جب اللہ نے چاہا تو رشتہ ہوجائے گا۔
جویریہ سعود نے کہا کہ ان ماؤں کو چاہیے کہ خود بھی کوششیں کریں اور جب بچیاں چھوٹی ہوں تب سے ہی رشتے ڈھونڈنا شروع کردیں۔
ادکارہ نے کہا کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں لیکن جب تک نوالہ بناکر منہ تک نہ لایا جائے آپ کھانا نہیں کھا سکتے۔
جویریہ سعود نے یہ گفتگو اپنے ایک ڈرامے کے تناظر میں کی ہے جس کی وہ مصنفہ بھی ہیں۔
اس ڈرامے میں ایک ایسی لڑکی کو دکھایا گیا ہے جس کی شادی کی عمر نکل چکی ہے اور گھر میں دیگر بھابھیوں اور بہنوں کی کامیاب ازدواجی زندگی کو دیکھ دیکھ کر احساس محرومی کا شکار ہوگئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جویریہ سعود نے نے کہا کہ
پڑھیں:
رمضان، مہنگائی پر قابو پانا ضروری
وزیراعظم شہباز شریف نے چینی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ رمضان المبارک میں چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک میں چینی کی سپلائی، قیمتوں کے کنٹرول اور عام عوام کو سستی اشیائے خور و نوش کی فراہمی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ مل کر عام آدمی کو بنیادی اشیاء مناسب نرخوں پر فراہم کرنے کے اقدامات یقینی بنائیں۔
مخصوص مافیاز رمضان شریف کی آمد سے پہلے اور تاجر حضرات طلب و رسد میں عدم توازن کا بہانہ بنا کر خود ساختہ مہنگائی کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ کاسٹ اینڈ اکاؤنٹس کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنا ہے، دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے، کاسٹ اکاؤنٹینٹ ہر قسم کی مصنوعات کی لاگت، صنعت کار، ڈسٹری بیوٹر، ریٹیلر کا منافع، فریٹ اور اسٹوریج کا تخمینہ لگا کر مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں، تاجر حضرات اس قیمت پر اشیاء کی فروخت پر مجبور ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی اس شعبے کو انڈسٹری کا درجہ حاصل نہیں ہوا، جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی مصنوعات کی قیمت مرضی سے متعین کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب ہر وقت رواں دواں رہتا ہے۔
ایک اور المیہ صنعتکاروں کا کارٹل ہے جو مل کر اپنی مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں، ان کے نزدیک اہم ترین اپنا منافع ہوتا ہے اور حکومتیں ہمیشہ ان کارٹلز کے سامنے بے بس رہی ہیں، شوگر مل مالکان کو ہی لے لیں وہ کسان سے گنا بھی اپنی قیمت پر خریدتے ہیں اور پھر اس سے تیار شدہ چینی بھی اپنی مرضی کے نرخوں پر بیچتے ہیں، کچھ عرصہ قبل انھوں نے مل ملا کر چینی کی برآمد کی اجازت لے لی اور کہا کہ وہ صرف فالتو چینی باہر بھیجیں گے، ملکی عوام اس سے متاثر نہیں ہوں گے مگر ہوا وہی جس کا خدشہ تھا اب چینی کی قیمت کو پکڑنے اور روکنے والا ہی کوئی نہیں اور اس پر رمضان المبارک کی آمد ان کے لیے لامحدود منافع خوری کا ذریعہ بن گیا ہے، اگرچہ مہنگائی پر قابو پانا کچھ زیادہ مشکل نہیں، مگر سیاسی مفادات آڑے آتے ہیں اور حکومت ان کی مرضی کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاتی ہے، اگر سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہ آنے دیا جائے تو کارٹلز کی اجارہ داری کو نہ صرف توڑا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی ریلیف دینا ممکن ہے۔
قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیا کھل کر کھیل رہے ہیں اور عام آدمی اس مافیا کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔ ملک میں چالیس فیصد لوگ خط غربت کی لکیر نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث غربت اور مہنگائی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے الارمنگ حالات میں عام آدمی کی معاشی حالت کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث قوت خرید جواب دیتی جا رہی ہے۔
ذخیرہ اندوزی ناقابل ضمانت جرم ہے، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لیے مروجہ قوانین پر عمل نہ ہونا مافیاز کو تقویت دینے کا باعث ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے انسداد کے لیے دو ایکٹ اور کئی ضمنی قوانین موجود ہیں، لیکن قوانین کا عملی نفاذ دیکھنے میں نہیں آیا یہی وجہ ہے یہ مافیا آئے روز عام آدمی کو معاشی ناہمواری کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ ملک میں امتناع ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی ایکٹ مجریہ 1977اور فوڈ سٹی کنٹرول ایکٹ 1958 کے تحت سرکاری محکموں کو مارکیٹ میں روزمرہ ضروری اشیاء کی مناسب رسد کی فراہمی،قیمتوں پر کنٹرول، ذخیرہ کی گئی اشیاء کی برآمدگی اور اس بارے ذمے داروں کو سزا دلوانے کے وسیع اختیارات موجود ہیں۔
المیہ ہے مروجہ قوانین چھوٹے دکانداروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں ایسے مل مالکان، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں جنھیں سزائیں ہوئیں۔ مروجہ ایکٹ کا سیکشن 7حکومتی محکموں کو ذخیرہ کی گئی چینی، آٹا، دالیں دیگر روزمرہ کی ضروری اشیاء ضرورت کے مطابق مارکیٹ میں لانے کی اجازت دیتا ہے۔ سیکشن 8 کے تحت حکومت قیمتوں کے تعین کا جائزہ لے سکتی ہے اور سیکشن 11 کے تحت مرتکب ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سمری ٹرائل کیا جا سکتا ہے، لیکن مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے، کرپشن اور کنٹرولر آف پرائسزکے عہدے ذخیرہ اندوزی اور منافع خور مافیا کے محافظ بن گئے ہیں۔
اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اعتدال نہ ہونے کے باعث عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نہیں رہا۔ رمضان المبارک میں ہر خاص و عام کی کوشش ہوتی ہے، افطار کے وقت دستر خوان کشادہ ہو لیکن غریب آدمی 7 سو روپے کلو مرغی کا گوشت نہیں خرید سکتا، پھل اتنے مہنگے کہ قیمت سن کر عام آدمی کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ مہنگائی کا ماتم اپنی جگہ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے عام آدمی اور متوسط طبقہ کا بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔
خریداری کرتے ہوئے دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کیا خریدیں کیا چھوڑ دیں۔ عام آدمی مشکل سے اپنے گھر کی بسر اوقات کرتا ہے۔ مروجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا اس بات کا غماز ہے حکومت اس مافیا کے سامنے بے بس ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کے مرتکب افراد کو نہ بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی سزائیں دی جاتی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی کوئی میکانزم ہے اور یہی وجہ ہے مہنگائی کے خلاف کیے گئے حکومتی اقدامات غیر موثر ہیں۔
حالیہ دنوں میں چینی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جو چینی چند ماہ قبل 120 روپے فی کلو تھی، اب 170 سے 180 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہی چینی ہے جو رمضان میں غریب عوام روزہ افطار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیاء کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں، جس سے عام آدمی کی زندگی مزید دشوار ہو گئی ہے۔غیر مسلم اپنے مذہبی تہواروں کے موقع پر خور نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں جہاں کمی کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں اشیاء بھی وافر مقدار میں دستیاب کرتے ہیں لیکن ہم کیا کرتے ہیں جیسے ہی ماہ رمضان قریب آتا ہے تو اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دگنی کر دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں مذہبی تہواروں اور مقدس ایام کے موقع پر تاجر حضرات ازخود قیمتوں میں کمی کر کے ہر کس و ناکس کو خوشیوں میں شریک ہونے کے اسباب اور وسائل فراہم کرتے ہیں، مگر ہمارے ہاں تاجر رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیاء کی قلت کر کے قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں، ہمارے یہاں گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دیدی جاتی ہے۔
مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ خریداروں کی کوئی ایسوسی ایشن نہ ہونا ہے،دنیا بھر میں بائرز اور کسٹمرز ایسوسی ایشنز ہیں،جیسے ہی کسی چیز کی قیمت میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے خریدار انجمنیں اس کا بائیکاٹ کر دیتی ہیں، خریدار ایسی اشیاء کی خریداری کم کر دیتے ہیں، جس کے نتیجہ میں تاجر حضرات کو مجبوراً قیمت کم کرنا پڑ جاتی ہے،مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی تصور نہیں جس کی وجہ سے تاجر اور صنعتکار من مرضی کرنے کے لیے آزاد ہیں، صاحب حیثیت اور صاحب ثروت طبقہ بھی مہنگائی کا ذمے دار ہے جو پسندیدہ اشیاء کو من مرضی قیمت پر خریدنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے، اگر یہ طبقہ تھوڑی سی مزاحمت کرے تو مصنوعی مہنگائی کی لہر کو روکا جا سکتا ہے۔
سب سے اہم ذمے داری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ہے، جن کے قیام کا مقصد ہی قیمتوں پر نظر رکھنا ہے، مگر پاکستان میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غفلت، لاپروائی اور رشوت لینے کی وجہ سے دکانداروں سے لے کے ریڑھی والا ہرکوئی مرضی کی قیمت وصول کر رہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قیمت کنٹرول کرنے والے اپنی ذمے داری اور اس کے معاشرتی اثرات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے آفیسر مارکیٹوں سے ہفتہ یا دیہاڑی وصول کرتے ہیں اور انھیں من مرضی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔
انھیں نہیں معلوم ہوتا کہ جس دکاندار سے وہ ہزار روپیہ رشوت لے رہے ہیں وہ چیزیں مہنگی بیچ کے لوگوں سے لاکھوں روپے زیادہ وصول کرے گا۔ وہ یہ نقطہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی لالچ،غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کو روزانہ کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہی فعال ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں کے لوگوں کا مقصد خدمت عوام نہیں بلکہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔
حکومت اگر چاہتی ہے کہ ان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے اثرات عام لوگو ں تک پہنچیں تو بہت ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے کا م کرنے کے طریقہ کار کو بہتر کیا جائے اور ضلعی انتظامیہ اپنے افسران پر کڑی نظر رکھے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور کوتاہی کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف انضباطی کارروائیاں کی جائیں تاکہ کسی کو لاپروائی پر سزا ملتی دیکھ کے باقی ملازمین اپنی ذمے داریوں کو ایمانداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرنے لگیں۔