Islam Times:
2025-03-04@21:16:35 GMT

لبنان میں سیاسی تبدیلی اور حزب اللہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

لبنان میں سیاسی تبدیلی اور حزب اللہ

اسلام ٹائمز: نئے لبنانی صدر امریکہ کیساتھ تعلقات کے حوالے سے تاکید کرتے نظر آرہے ہیں۔ انکا کہنا ہے "میں ہمیشہ پرامید ہوں اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ امریکہ کیساتھ تعلقات ضروری ہیں۔ ہم نے ابھی تک جو مالی، تربیتی اور سازوسامان کی امداد حاصل کی، اسکا 90 فیصد صرف امریکی فوجی کمانڈ سے آیا ہے۔" تاہم رائے عامہ کو قائل کرنے کا یہ حکومتی انداز یقیناً زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ لبنانی عوام حکومت کی نااہلی اور غیر ملکی طاقتوں کیطرف سے صہیونی فوج کو لبنان کے باقی حصوں پر قبضہ ختم کرنے پر مجبور نہ کرنے کی خواہش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی سازشوں کیخلاف خود میدان میں اتریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لبنان کے سرحدی و علاقائی مفادات کے بنیادی محافظ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

لبنان میں نئے صدر کے انتخاب اور نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی صورتحال بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ نئی ​​کابینہ کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتوں کے دوران، غیر ملکی طاقتوں کے دباؤ کی وجہ سے حزب اللہ اور مزاحمت کے ہتھیاروں پر حکومتی اہلکاروں کے زبانی حملوں کی تعداد اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے، جس میں سکیورٹی اور سرحدوں کے دفاع کو صرف حکومتی ذمہ داری قرار دیا جائے۔ حزب اللہ کے ہتھیاروں کو ختم کرنے اور اسلامی مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا پروپگینڈا اس وقت زوروں پر ہے۔ لبنان کے نئے صدر اور سابق فوجی کمانڈر جوزف عون نے اپنے پہلے بیرونی دورے کے موقع پر سعودی میڈیا کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ "ہمارا مقصد یہ ہے کہ سکیورٹی اور سرحدوں کے دفاع کے لئے صرف حکومت جوابدہ ہو۔ یہ حکومت کے فرائض ہیں اور کسی کو بھی سرحدوں کی حفاظت کا فرض ادا کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ملک کے دفاع کا اختیار صرف حکومت اور ملک کے دفاعی اداروں کے پاس ہونا چاہیئے۔

کہا جا رہا ہے کہ بیس سالوں میں پہلی بار لبنانی وزاراء کے بیانات سے "مزاحمت" کی اصطلاح کو ہٹا دیا گیا ہے، جو آنے والے دور میں حزب اللہ کے عسکری کردار کے بارے میں بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ دوسری جانب حزب اللہ نے گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ملکی سلامتی اور سرحدوں کے دفاع کے حوالے سے  لبنان کے حکومتی اہلکاروں کا نیا موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے باوجود لبنان کے پانچ اسٹریٹجک مقامات پر صیہونی فوج کا قبضہ ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے انخلاء کا مطالبہ لبنانیوں میں ان دنوں بہت زوروں پر ہے اور ماضی میں ان علاقوں (شبا فارم، شبا کفر ہل) میں دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی رائے انتہائی تشویشناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی رہنماؤں اور عہدیداروں سے سنجیدہ کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان حالات میں حزب اللہ اور مزاحمت، جس نے گذشتہ برسوں میں لبنانی فوج کی ارضی سالمیت اور لبنانی شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع میں ناکامی کا بوجھ اکیلے ہی اٹھایا ہوا تھا، اب اسے غیر مسلح کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں، بعض پارلیمانی نمائندوں اور مزاحمت کے قریبی شخصیات نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر آپ حزب اللہ کی حمایت کے بغیر، لبنان کی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے فوج کی آزادانہ صلاحیت پر اصرار کرتے ہیں"یہ گھوڑا اور یہ میدان۔" جو چاہیں انجام دیں۔ اس سلسلے میں لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی دھڑے "وفاداری" کے نمائندے حسن فضل اللہ نے "عیتا الشعب" کے شہداء کی نماز جنازہ میں کہا: "ہم فخر و عظمت کے قصبے عیط الشعب سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے لبنان کو دہشت گردوں سے بے دخل کرنے کی ذمہ داری حکومت کو سونپ دی ہے۔

ایک اور تبصرے میں، مزاحمتی پارٹی کے ایک اور نمائندے حسین الجیشی نے نقورہ قصبے میں شہداء کی تغزیتی تقریب میں اپنی تقریر میں، حزب اللہ کی کامیابی اور نقورہ کے سکیورٹی بفر زون پر غلبہ پانے کے دشمن کے منصوبے کو ناکام بنانے پر زور دیا۔ حسین الجیشی کا کہنا تھا کہ حالیہ جنگ کی ذمہ داری کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔ تمام لبنانی سرزمین سے قابضین کو نکال باہر کرنا اور صہیونی دشمن نے جو تباہ کیا ہے، اسے دوبارہ تعمیر کرنا، خاص طور پر مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع دیہات اور قصبات کو محفوظ بنانا اب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی روزمرہ کی جارحیتوں اور حملوں سے سنجیدگی اور فیصلہ کن انداز میں نمٹنے اور معاہدے پر عمل درآمد کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

ترقی اور آزادی کے بلاک کے نمائندے علی خریس نے بھی ایسا ہی بیان دیا اور کہا ہے کہ "آج ہمارے پاس جمہوریہ کا نیا صدر اور ایک نئی حکومت ہے اور یہ لبنانی حکومت کا فرض ہے کہ وہ قابض کو ہماری تمام زمینوں اور علاقوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کرے اور دشمن نے جو تباہ کیا ہے، اسے دوبارہ تعمیر کرے۔ ان بیانات کے ساتھ حزب اللہ نے مزاحمتی ہتھیاروں کے خلاف حکومتی اہلکاروں کے جارحانہ مؤقف کے جواب میں مؤثر طریقے سے گیند کو حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا ہے اور اب حکومتی اہلکاروں کو جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور صیہونی حکومت کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے میں ناکامی پر رائے عامہ کو جواب دینا ہوگا۔

 اس اقدام سے حزب اللہ نے نہ صرف لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والے غیر ملکی عناصر کو بے نقاب کیا بلکہ مزاحمت کے خلاف سازشوں کو بھی طشت ازبام کردیا ہے۔ حزب اللہ نے اسی تناظر میں لبنانی فوج کو مضبوط بنانے اور جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کرنے اور صہیونی فوج کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے کی ذمہ داری حکومتی افواج پر ڈال دی ہے۔ حزب اللہ کی اس سیاسی چال نے ملکی اور غیر ملکی سازشیوں کے لیے ایک چیلنجنگ صورت حال پیدا کر دی ہے، کیونکہ عوامی بیداری کے دباؤ میں لبنانی حکومت کے حکام پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ مغرب، امریکہ کی قیادت میں، لبنان میں صیہونی حکومت کے ناجائز مفادات کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کرے گا۔ حال ہی میں لبنان کا دورہ کرنے والے امریکی حکام نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ لبنان پر اسرائیل کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوسری جانب جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی لبنانی فوج پر اسرائیلی حملے بند نہیں ہوئے اور ان حملوں میں لبنانی فوج کی ہلاکتیں تقریباً ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ امریکیوں نے جنگ بندی کی اس صریح خلاف ورزی کے باوجود زبانی بیان تک نہیں دیا۔ دوسری طرف لبنانی حکومت کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ اس معاملے کو غیر اہم قرار دے۔ وہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے رائے عامہ کے سامنے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ مثال کے طور پر، شرق الاوسط کے ساتھ ایک انٹرویو میں لبنانی صدر جوزف عون نے صہیونی فوج کے قبضے میں موجود پانچ علاقوں کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم فرانسیسی اور امریکیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، تاکہ وہ اسرائیلیوں پر دباؤ ڈالیں کہ لبنان کے پانچ علاقوں سے دستبردار ہو جائیں، کیونکہ ان کی کوئی فوجی اہمیت نہیں ہے۔"

پڑوسیوں پر صیہونی حکومت کی فوجی برتری کو برقرار رکھنے اور لبنانی فوج کو صیہونی حکومت کے حملوں کے خلاف مزاحمتی ہتھیاروں سے لیس نہ کرنے کی امریکی حکومت کی بنیادی حکمت عملی سے آگاہ ہونے کے باوجود نئے لبنانی صدر امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تاکید کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "میں ہمیشہ پرامید ہوں اور واضح طور پر کہتا ہوں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں۔ ہم نے ابھی تک جو مالی، تربیتی اور سازوسامان کی امداد حاصل کی، اس کا 90 فیصد صرف امریکی فوجی کمانڈ سے آیا ہے۔" تاہم رائے عامہ کو قائل کرنے کا یہ حکومتی انداز یقیناً زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ لبنانی عوام حکومت کی نااہلی اور غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے صہیونی فوج کو لبنان کے باقی حصوں پر قبضہ ختم کرنے پر مجبور نہ کرنے کی خواہش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لبنانی عوام اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی سازشوں کے خلاف خود میدان میں اتریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لبنان کے سرحدی و علاقائی مفادات کے بنیادی محافظ حزب اللہ کے جوان ہی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حکومتی اہلکاروں صیہونی حکومت لبنانی عوام ساتھ تعلقات کے حوالے سے حزب اللہ کے حزب اللہ نے کی ذمہ داری لبنانی فوج علاقوں سے کہا ہے کہ حکومت کے غیر ملکی لبنان کے حکومت کی کے خلاف کے ساتھ کے دفاع کرنے کی کو غیر فوج کو کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

لبنان کے نومنتخب صدر اپنے پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے

لبنان کے صدر جوزف عون پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان میں 2 سال کے سیاسی تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل

عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق جوزف عون نے کہا ہے کہ وہ بیروت اور ریاض کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے منتظر ہیں۔

جنوری میں صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے اولین بیرون ملک سرکاری دورے پر پیر کو سعودی عرب پہنچے ہیں۔

جوزف عون نے ایکس پر شائع شدہ تبصروں میں کہا کہ ’میں آج شام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے لیے بہت امید کے ساتھ منتظر ہوں‘۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات مستقبل کے دوروں کے لیے راہ ہموار کریں گے جہاں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ معاہدوں پر دستخط ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: اسرائیلی فوج کا لبنان پر ڈرون حملہ، حماس کا اہم کمانڈر شہید

جوزف عون وزیر خارجہ یوسف رجی کے ہمراہ ریاض پہنچے۔ لبنان کے سابق آرمی چیف جوزف عون جنوری میں صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کے انتخاب کا علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر خیرمقدم کیا گیا تھا۔

یہ پیش رفت لبنان کے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ملوث ہونے کے مہینوں بعد سامنے آئی۔

صدر نے پہلے اعلان کیا تھا کہ بیرونِ ملک ان کا اولین سرکاری دورہ سعودی عرب کا ہو گا۔ انہوں نے لبنان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات پر بھی زور دیا تھا۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف جوزف عون لبنان کے نئے صدر منتخب، عالمی برادری کا خیر مقدم

گزشتہ برسوں میں حزب اللہ اور منشیات کی اسمگلنگ اور یمن کے حوثیوں کو امداد دینے میں اس کے کردار کی وجہ سے چونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے تاہم جوزف عون نے امید ظاہر کی ہے کہ انہیں درست کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

لبنان کے صدر کا دورہ سعودی عرب لبنانی صدر لبنانی صدر جوزف عون

متعلقہ مضامین

  • رمضان اور مہنگائی
  • حکومت اسرائیلی جارحیت پر کیوں خاموش ہے؟، حزب‌ الله
  • حکومت ایک سال میں امن وامان، سیاسی استحکام اور معیشت کو بہتر کرنے میں ناکام رہی
  • چلاس، دیامر ڈیم متاثرین کا دھرنا 18 ویں روز میں داخل
  • بی جے پی حکومت کے شدید دبائو کے باعث کشمیری وکلاء سیاسی مقدمات لینے سے کترا رہے ہیں
  • لبنان کے نومنتخب صدر اپنے پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
  • بلوچستان سیاسی و سماجی قیادت کیلئے غیر محفوظ ہو چکا ہے، اسرار زہری
  • اسلام کے 5 بنیادی ارکان؛ اللہ کی رضا اور بہتر انسان بننے کا ذریعہ
  • ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ...عبادات کا خصوصی اہتمام کریں!!