اسلام ٹائمز: سویدا فوجی کونسل نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے دروزی باشندوں کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دروزی باشندے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے اور حتی سیاسی اور فوجی مدد کے عوض اسرائیلی پرچم کے سائے تلے جانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار ان اقدامات کو "داود راہداری" تشکیل دینے کا مقدمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس راہداری کا مقصد صیہونی فوج کو مشرقی فرات تک رسائی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کرد اتحادیوں کی مدد کر سکے۔ دریائے فرات کے مشرقی حصے میں اسرائیل اور امریکہ کے اتحادی کرد گروہ سرگرم عمل ہیں جبکہ امریکہ اور اسرائیل شام کی تقسیم کے لیے ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سویداء پر قبضے کے بعد صیہونی فوج آسانی سے شام کے جنوبی حصوں میں پیشقدمی کر سکتی ہے کیونکہ صوبہ حمص کے علاقے التنف پر گذشتہ کئی سال سے امریکہ کا قبضہ چلا آ رہا ہے اور امریکی فوج صوبہ دیرالزور تک صیہونی فوج کی رسائی کا زمینہ فراہم کرے گی۔ تحریر: کتایون مافی
کیا مغربی ایشیا میں ایک نئی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو غاصب صیہونی رژیم کی خفیہ میٹنگز سے سنائی دے رہا ہے۔ ان دنوں غاصب صیہونی رژیم نے شام کو چھوٹی چھوٹی قومی، فرقہ وارانہ اور مذہبی ریاستوں میں تقسیم کر دینے کا شیطانی اور جہنمی منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ منصوبہ ابو محمد الجولانی کی مجرمانہ خاموشی کے زیر سایہ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ شام میں صدر بشار اسد حکومت گر جانے کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے شام میں دو بنیادی ہدف اپنا رکھے ہیں جن میں سے پہلا شام آرمی کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کو نابود کرنا اور دوسرا گولان ہائٹس میں واقع بفر زون میں اسرائیلی فوج کو گھسانا ہے۔ گولان ہائٹس میں جبل الشیخ نامی علاقے پر فوجی قبضہ شام کے 14 کلومیٹر اندر تک دراندازی شمار ہوتی ہے۔
یہ بفر زون اقوام متحدہ کے زیر نظر ہے اور شام کی سرزمین میں شامل ہے جس پر اسرائیلی فوج نے غاصبانہ قبضہ جما لیا ہے۔ اب تک صیہونی فوج نے بفر زون میں 235 مربع میٹر رقبے پر قبضہ کر لیا ہے جو اکتوبر 1973ء کی جنگ کے بعد 1974ء جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔ اس علاقے پر صیہونی فوجی قبضہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی ایک اور خلاف ورزی ہے جس کے نتیجے میں گولان ہائٹس کا مستقبل بھی خطے میں پڑ گیا ہے۔ حال ہی میں عبری ذرائع ابلاغ نے فاش کیا ہے کہ صیہونی حکمرانوں کے ایک خفیہ اجلاس میں شام کو تین علوی، کردی اور دروزی ریاستوں اور دو اہلسنت عرب ریاستوں میں تقسیم کر دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے عملی اقدامات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
شام میں صدر بشار اسد حکومت سرنگون ہو جانے کے بعد صیہونی فوج نے شام کے اندر گھس کر وسیع علاقوں پر قبضہ جما لیا جو اب تک جاری ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام سے فوجی انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتی۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار یسرائیل ہیوم نے اپنی رپورٹ میں لکھا: "نتین یاہو کابینہ کے ایک خفیہ اور اعلی سطحی اجلاس میں یہ پیشکش کی گئی ہے کہ شام کو چھوٹی چھوٹی متعدد ریاستوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔" صیہونی فوجی ماہرین اس منصوبے کے تحت شام کو پانچ فرقہ وارانہ ریاستوں، کرد، دروزی اور علوی باشندوں کے لیے تین علیحدہ ریاستوں اور اہلسنت عرب باشندوں کے لیے دو ریاستوں میں تقسیم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں کی سیکورٹی یقینی بنانا بیان کیا گیا ہے۔
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے صدر بشار اسد کے چلے جانے کے ایک دن بعد 9 دسمبر 2024ء کے دن مقبوضہ گولان ہائٹس کا دورہ کیا اور وہاں سے شام کے دروزی باشندوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "سب سے پہلے اور اہم ترین اقدام کے طور پر اپنے بھائیوں، شام کے دروزی باشندوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں جو ہمارے اسرائیلی دروزی باشندوں کے بھائی ہیں۔" اسی حمایت کے اعلان نے شام کے جنوبی علاقوں میں ہنگاموں کی شدت میں اضافہ کر دیا اور شام کی سیکورٹی فورسز کے دو افراد مسلح دروزی باشندوں کے جرمانا گاوں میں قتل کر دیے گئے۔ اسی وقت صیہونی وزیراعظم کے دفتر نے ایک بار پھر اعلان کیا: "نیتن یاہو اور گانتز (وزیر جنگ) نے دمشق کے جنوب میں واقع جرمانا گاوں کے باشندوں کی حفاظت کے لیے فوج کو ضروری ہدایات جاری کر دی ہیں۔"
اب اسرائیل دروزی باشندوں کی حفاظت کے بہانے شام کی سرزمین پر بفر زون بنانے کے درپے ہے۔ اکثر دروزی باشندے شام کے جنوب مغربی علاقوں جیسے جبل الشمس، جبل العرب یا جبل الدروز میں مقیم ہیں۔ ان علاقوں میں دروزی باشندوں کی 90 فیصد آبادی مقیم ہے اور ان کے 120 گاوں پائے جاتے ہیں۔ دروزی باشندوں کی اکثریت شام کے صوبہ سویدا میں آباد ہے اور یہ صوبہ شام کا واحد ایسا صوبہ ہے جہاں دروزی باشندوں کی اکثریت ہے۔ صوبہ سویداء میں مقامی مسلح گروہوں نے اعلامیے جاری کیے ہیں جن میں ایک نئے گروہ "المجلس العسکری للسویداء" (سویدا فوجی کونسل) کی تشکیل کا اعلان کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گروہ کا لوگو سیرین ڈیموکریٹک فورسز (SDF) سے بہت ملتا ہے۔ اس گروہ کے اعلان کے بعد صوبہ سویداء کے جنوب میں الغاریہ نامی علاقے کے رہائشیوں نے اس میں شامل ہونا شروع کر دیا ہے۔
سویدا فوجی کونسل نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے دروزی باشندوں کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دروزی باشندے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے اور حتی سیاسی اور فوجی مدد کے عوض اسرائیلی پرچم کے سائے تلے جانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بعض سیاسی تجزیہ کار ان اقدامات کو "داود راہداری" تشکیل دینے کا مقدمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس راہداری کا مقصد صیہونی فوج کو مشرقی فرات تک رسائی فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے کرد اتحادیوں کی مدد کر سکے۔ دریائے فرات کے مشرقی حصے میں اسرائیل اور امریکہ کے اتحادی کرد گروہ سرگرم عمل ہیں جبکہ امریکہ اور اسرائیل شام کی تقسیم کے لیے ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سویداء پر قبضے کے بعد صیہونی فوج آسانی سے شام کے جنوبی حصوں میں پیشقدمی کر سکتی ہے کیونکہ صوبہ حمص کے علاقے التنف پر گذشتہ کئی سال سے امریکہ کا قبضہ چلا آ رہا ہے اور امریکی فوج صوبہ دیرالزور تک صیہونی فوج کی رسائی کا زمینہ فراہم کرے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاستوں میں تقسیم کر دروزی باشندوں کی صیہونی وزیراعظم صیہونی فوج باشندوں کے نیتن یاہو کی حمایت دینے کا کے بعد گیا ہے شام کو ہے اور کیا ہے فوج نے فوج کو شام کے شام کی کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
غزہ میں صیہونی فوج کی جارحیت، 4 فلسطینی شہید، متعدد زخمی
حماس نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی اسرائیلی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے، تاکہ مستقل امن قائم ہو سکے، پہلے مرحلے میں توسیع کروا کر اسرائیل جنگ چھیڑنے کا امکان کھلا رکھنا چاہتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے صیہونی قابض فوج نے 4 فلسطینیوں کو شہید کر دیا جبکہ قابض فوج نے غزہ کی تمام کراسنگ پوائٹس کی ناکہ بندی کرتے ہوئے ہر قسم کی امداد کا داخلہ بند کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مقامی ذرائع نے بتایا کہ محمود مدحت ابو حرب نامی نوجوان کو غزہ کی پٹی کے جنوب میں رفح شہر کے وسط میں ایک اسرائیلی سنائپر نے گولی ماری۔ شہید ابو حرب آج صبح کے بعد دوسرا واقعہ ہے کیونکہ غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت حانون میں شہریوں کے ایک اجتماع کو نشانہ بنایا جس کےنتیجے ایک فلسطینی نوجوان شہید اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ اس طرح گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والوں کی تعداد چار ہو گئی ہے جب کہ کئی شہری زخمی ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع نے بتایا کہ شہید کا نام حذیفہ ابراہیم المصری ہے۔
قابض اسرائیل کی جانب سے نئی جارحیت جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے ایک دن بعد دیکھنےمیں آئی ہے، جب کہ دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات معاہدے تا حال شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالی، کیونکہ وہ غزہ میں ممکنہ سب سے زیادہ تعداد میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں توسیع کرنا چاہتا ہے تاہم دوسری طرف وہ جنگ بندی کی اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ انیس جنوری کو جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے قابض فوج نے انسانی ہمدردی کے پروٹوکول پر عمل درآمد نہ کرنے کے علاوہ درجنوں خلاف ورزیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں 100 سے زائد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
قابض اسرائیل نے اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کو قبول کرنے سے انکار کے بعد امداد لے جانے والے ٹرکوں اور گاڑیوں کو غزہ جانے سے روک دیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی اسرائیلی تجویز کو مسترد کر دیا ہے، کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جائے، تاکہ مستقل امن قائم ہو سکے، پہلے مرحلے میں توسیع کروا کر اسرائیل جنگ چھیڑنے کا امکان کھلا رکھنا چاہتا ہے۔ قبل ازیں حماس نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے اور امداد کی فراہمی کو معطل کرنے کے اسرائیلی فیصلے کو بلیک میلنگ سے تشبیہ دی ہے۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بتایا کہ جنگ بندی کے اصل معاہدے کے مطابق سیز فائر کے دوسرے مرحلے کے لیے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی ہے، جب کہ پہلا مرحلہ ہفتے کو ختم ہو چکا ہے۔
حازم قاسم نے کہا کہ اسرائیل دوسرے مرحلے کے مذاکرات شروع نہ کرنے کا ذمہ دار ہے، اور الزام عائد کیا کہ اسرائیل غزہ سے باقی قیدیوں کی بازیابی چاہتا ہے، جب کہ جنگ دوبارہ شروع کرنے کے امکانات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ایک روز قبل بھی حماس نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ معاہدے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو جائے، ہم معاہدے کی تمام شرائط، تمام مراحل اور تفصیلات پر عمل درآمد کے لیے اپنے مکمل عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مصر کی سرکاری انفارمیشن سروس نے جمعے کے روز کہا تھا کہ اسرائیل کے حکام نے جمعرات کے روز قاہرہ میں قطر اور امریکا کے ثالثوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی، تاہم، ان مذاکرات کا بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ غزہ جنگ بندی کے 42 روزہ پہلے مرحلے کے باضابطہ اختتام کے ساتھ ہی اتوار کی علی الصباح اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے غیر معینہ مدت تک انتظار کرے گا، جس میں باقی یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کے بارے میں امریکی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
نصف شب کو اپنی سکیورٹی کابینہ کے ساتھ کئی گھنٹے کی سکیورٹی مشاورت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز کی توثیق کر رہے ہیں، جس کے تحت حماس کے ساتھ جنگ بندی کو رمضان اور فسح تک توسیع دی جائے گی، جس کے دوران تمام یرغمالیوں کو ممکنہ طور پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ جمعہ کی رات سے شروع ہونے والا رمضان 29 مارچ تک جاری رہے گا، عید فصح 19 اپریل کو ختم ہو گا۔ وٹکوف کی تجویز کے بارے میں قابض اسرائیل کے بیان کے مطابق باقی آدھے زندہ اور مردہ یرغمالیوں کو توسیع شدہ جنگ بندی کے پہلے دن رہا کیا جائے گا، اور اگر مستقل جنگ بندی ہو گئی تو باقی قیدیوں کو مدت کے اختتام پر رہا کر دیا جائے گا۔