لاہور:

پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم پاکستان اینیمل رائٹس ایڈوکیسی گروپ ( پارک)کی چیئرپرسن عائزہ حیدر نے کمشنر لاہور زید بن مقصود کو خط لکھ کر آوارہ کتوں کو مارنے کی غیر قانونی مہم کو روکنے اورعدالتی احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

عائزہ حیدرسمیت پارک کے دیگرممبران اور جانوروں کے حقوق کے کارکنان کی جانب سے بھی سیکرٹری لائیوسٹاک وڈیری ڈویلپمنٹ پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور کمشنر لاہور کو ای میل کی گئی ہیں جن میں لاہور ہائیکورٹ کے آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے ٹی این وی آرطریقہ کار اپنانے کا حکم  پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا  گیا ہے۔

عائزہ حیدر نے اپنے خط میں لکھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ گلی کے آوارہ  کتوں کو مارنے کے بجائے ٹی این وی آر ( ٹریپ، نیوٹر،ویکسینیٹر اینڈ ریلیز) کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نظام اپنایا جائے گا تاکہ ریبیز کے خاتمے اور آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس شاہد کریم نے گزشتہ ماہ اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ اس پالیسی پر مکمل عملدرآمد کیا جائے، جبکہ جسٹس جواد حسن کی سربراہی میں راولپنڈی بینچ نے بھی اسی پالیسی پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ خط میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پنجاب بھر میں عدالتی احکامات کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

عائزہ حیدر نے کہا کہ کچھ ناخواندہ سیاست دانوں کی جانب سے زبانی احکامات جاری کیے جا رہے ہیں، جن پر مقامی انتظامیہ بغیر کسی تحریری اجازت کے عمل کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک غیر مؤثر اور ظالمانہ عمل بھی ہے جو جانوروں کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔

پنجاب میں آوارہ کتوں کی آبادی کے درست اعدادوشمار کسی بھی سرکاری/نجی ادارے کے پاس موجود نہیں ہیں تاہم سال 2022 میں  2 لاکھ 30 ہزار آوارہ کتوں کی نس بندی کرکے ان کے لیے شیلٹرہوم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے لیے 74 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی تھی تاہم ابھی تک شیلٹرہوم قائم نہیں ہوسکا۔

آوارہ کتوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا دیکھنے میں آیا ہے۔ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات کی اعزازی سیکرٹری اور یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر انیلہ ضمیر درانی کہتی ہیں کہ ٹی این وی آرمنصوبے پر عمل درآمد کی ذمہ داری پنجاب لائیوسٹاک وڈیری ڈویلپمنٹ کی تھی جبکہ ایس پی سی اے ( سوسائٹی برائے انسداد بےرحمی حیوانات) نے معاونت فراہم کرنا تھی لیکن اس منصوبے کے لیے فنڈز نہیں مل سکے جس کی وجہ سےکام رکا ہوا ہے۔

پولیس اینیمل ریسکیوسنٹر (پارک) کی کوآرڈنیٹر، اے ایس پی سیدہ شہربانو نقوی نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں آوارہ کتوں کو ہلاک کیے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ گیٹیڈ سوسائٹی کلچر ہے، لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جس سوسائٹی میں رہتے ہیں وہاں کوئی کتا نظرنہ آئے۔اس لئے سوسائٹی کے گارڈز کی مدد سے کتوں کو رات کے اندھیرے میں گولی مارکر ہلاک کردیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ گنجان آباد علاقوں سے متصل قبرستانوں میں آوارہ کتے بعض اوقات نئی قبروں خاص طور پر بچوں کی قبریں کھود کر میت نکال کرکھاتے ہیں، ایسے کچھ واقعات  رپورٹ بھی ہوئے جس کی وجہ سے لوگ انہیں مارتے ہیں جبکہ کتوں کا شہریوں خاص طور پر بچوں کو کاٹنا بھی شہریوں کے غم وغصے کا سبب بنتا ہے۔

کتوں کے کاٹنے کے حتمی اعداد وشمار بھی دستیاب نہیں ہیں تاہم جون 2024 میں، ملک بھر میں ایک ہفتے کے دوران کتوں کے کاٹنے کے 7,957 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 5,259 کیسز پنجاب سے تھے جبکہ جولائی 2024 میں، ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں 7,815 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 5,158 کیسز پنجاب سے تھے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے قانونی اورعدالتی جنگ لڑنے والے بیرسٹراحمد پنسوٹا اور ایڈووکیٹ عزت فاطمہ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کتوں کو غیرطبعی موت مارنے یعنی انہیں زہر دینے کا طریقہ عالمی ادارہ صحت سے منظورشدہ نہیں ہے۔

کتوں کو زہر دے کر مارنے کے بہت سے نقصانات ہیں، یہ ہمارے ایکو سسٹم کے لیے نقصان دہ ہے۔ کتوں کی لاشیں کئی کئی روز تک زمین پر پڑی رہتی ہیں جس سے فضا اور مٹی دونوں آلودہ ہوتے ہیں، اسی طرح ایسے جانور اور کیڑے مکوڑے جو کتوں کی خوراک بنتے ہیں ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوجائے گی، سب سے بڑھ کر یہ کہ کتے گندگی صاف کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جانوروں کے حقوق کتوں کو مارنے آوارہ کتوں کو کتوں کی کے لیے

پڑھیں:

پنجاب کے ادارے مطلوب معلومات کا 52 فیصد ویب سائٹ پر لگاتے ہیں، فافن

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب کے سرکاری ادارے شفافیت میں ذرا بہتر ہیں۔

فافن نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبہ پنجاب کے سرکاری اداروں میں شفافیت ذرا بہتر ہوئی ہے تاہم اس میں اب بھی خلا موجود ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب کے سرکاری ادارے قانونی طور پر مطلوب معلومات کا 52 فیصد اپنی ویب سائٹ پر ظاہر کرتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے محکموں میں یہ تناسب 42 فیصد ہے۔

فافن نے یہ نتائج افواہوں کا مقابلہ معلومات سے کرنے کی مہم کے سلسلے میں اپنے سروے میں مرتب کیے۔

فافن کے مطابق سرکاری اور اصل معلومات کی عدم فراہمی سے افواہوں کو ہوا ملتی ہے جس سے اداروں کا اعتبار متاثر ہوتا ہے اور ان پر عوام کا اعتماد بھی کم ہوتا ہے۔

فافن نے اپنے جائزے میں پنجاب کے 253 سرکاری اداروں کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب سیکریٹریٹ سے وابستہ اداروں میں مطلوبہ معلومات کی فراہمی کا تناسب 61 فیصد ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سب سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ صوبے کے انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے محکمے نے کیا۔

اس کے بعد پنجاب جیل خانہ جات اور یونیورسٹی آف وٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز نے کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ایلون مسک کو سائنس دانوں کے معروف ادارے سے نکالنے کے مطالبہ
  • اقتصادی جائزہ مذاکرات، آئی ایم ایف کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں چوری روکنے کا مطالبہ
  • اقتصادی جائزہ مذاکرات، آئی ایم ایف کا رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں چوری روکنے کا مطالبہ
  • پنجاب کو جنگلی حیات کے تحفظ اور فروغ کا رول ماڈل بنائیں گے: مریم نواز
  • پنجاب کو جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کا رول ماڈل بنائیں گے: مریم نواز
  • پنجاب میں عالمی یوم جنگلی حیات کی تیاریاں زور و شور سے جاری
  • سپریم کورٹ ،انسانی حقوق یادگار کی معلومات کیلیے درخواست دائر
  • پنجاب کے ادارے مطلوب معلومات کا 52 فیصد ویب سائٹ پر لگاتے ہیں، فافن
  • وائلڈ لائف کی جھنگ اور تونسہ بیراج میں کارروائی، 5 آبی پرندے اور ریچھ برآمد