مصنوعی منشیات کی بڑھتی خرید و فروخت عالمی صحت عامہ کے لے خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 مارچ 2025ء) انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ (آئی این سی بی) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں مصنوعی طور پر تیارکردہ منشیات کی خریدوفروخت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے صحت عامہ کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیرانتظام کام کرنے والے اس بورڈ کی سالانہ رپورٹ (2024) کے مطابق اب پودوں سے بنائی جانے والی منشیات کے بجائے مصنوعی طریقے سے تیار کردہ نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
یہ منشیات کہیں بھی تیار کی جا سکتی ہیں اور ان کے لیے بڑے پیمانے پر پوست جیسی فصلیں کاشت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پیداوار اور فروخت آسان اور سستی ہے۔ Tweet URL'آئی این سی بی' کے صدر جلال توفیق نے کہا ہے کہ فینٹانائل جیسی منشیات کی معمولی مقدار بھی تیز نشہ پیدا کرتی ہے۔
(جاری ہے)
اسی وجہ سے ان کی مانگ اور ان سے پیدا ہونے والا طبی بحران بھی بڑھ رہا ہے اور یہ منشیات استعمال کرنے والوں کی اموات میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ڈرون اور ڈاک سے منشیات کی سمگلنگبورڈ کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ گروہ قانون سے بچنے کے لیے اپنے طریقہ کار کو متواتر تبدیل کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے کیمیائی مرکبات تیار کر رہے ہیں اور منشیات کی پیداوار کے لیے متبادل مادوں سے کام لینے کی غرض سے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں۔
منشیات کی سمگلنگ کے لیے ڈرون اور ڈاک جیسے نئے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جنہیں پکڑنا آسان نہیں ہوتا۔ نتیجتاً پودوں سے بنی ہیروئن اور کوکین کے مقابلے میں سنتھیٹک منشیات کو ڈھونڈنا اور قبضے میں لینا مشکل ہو گیا ہے۔
قانون پر سمگلروں کی برتریاگرچہ مصنوعی یا سنتھیٹک منشیات کی خریدوفروخت کو روکنے کی بہت سی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ایسے اقدامات یکجا نہیں ہوتے جس سے سمگلروں کو نفاذ قانون کے اداروں پر برتری حاصل رہتی ہے۔
بورڈ نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مضبوط بین الاقوامی تعاون بشمول حکومتوں، نجی کمپنیوں اور بین الاقوامی اداروں کے مابین بہتر اشتراک عمل پر زور دیا ہے تاکہ منشیات کی سپلائی چین کا خاتمہ ہو سکے۔
ناقابل رسائی ادویاتاگرچہ سنتھیٹک منشیات غیرقانونی منڈی میں عام ملتی ہیں لیکن کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں اب بھی لاکھوں لوگوں کو ضروری دردکش ادویات تک رسائی نہیں ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افیون سے بنی مارفین جیسی دردکش ادویات افریقہ، جنوبی ایشیا اور وسطی امریکہ میں دستیاب نہیں ہوتیں اور اس کی وجہ ان کی قلت نہیں بلکہ ان کی تقسیم اور ضابطہ کاری میں حائل رکاوٹیں ہیں۔
سنگین خطرے سے دوچار خطےبورڈ نے افیون پیدا کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس کی پیداوار میں اضافہ کریں اور قیمتوں میں کمی لائیں تاکہ یہ علاج معالجے اور دردکش مقاصد کے لیے آسانی سے دستیاب ہوں۔
رپورٹ میں متعدد ایسے علاقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جہاں سنتھیٹک منشیات کی سمگلنگ بڑھ رہی ہے۔
دو سال قبل افغانستان میں افیون کی پیداوار پر پابندی کے باعث یورپ میں اس کے سنتھیٹک متبادل کا استعمال بڑھنے کا خدشہ ہے جبکہ شمالی امریکہ میں اس بحران پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود سنتھیٹک منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات ریکارڈ بلندی کو چھو رہی ہیں۔
منشیات کی تیاری میں استعمال ہونے والے ایم فیٹامائن جیسے کیمیائی مادوں کی پیداوار، خریدوفروخت اور استعمال کے حوالے سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے حالات بھی تشویشناک ہیں جہاں منشیات کے عادی افراد کے علاج اور بحالی کی خدمات عام دستیاب نہیں ہوتیں۔
ایشیائی الکاہل خطے میں میتھم فیٹامائن اور کیٹامائن کی خریدوفروخت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے اور جنوبی مشرقی ایشیا کا علاقہ گولڈن ٹرائی اینگل اس اعتبار سے سرفہرست ہے۔
بین الاقوامی تعاون کی ضرورتبورڈ نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنائیں، معلومات کے تبادلے میں بہتری لائیں اور منشیات کے استعمال کی روک تھام اور اس کے علاج کی خدمات کو وسعت دیں۔ فیصلہ کن اقدام کے بغیر سنتھیٹک منشیات کی تجارت فروغ پاتی رہے گی اور مزید بہت بڑی تعداد میں زندگیوں کے لیے خطرہ ثابت ہو گی۔
جلال توفیق کا کہنا ہے کہ غیرقانونی سنتھیٹک منشیات کی صنعت عالمگیر صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے جس کے انسانیت پر تباہ کن نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس خطرناک مسئلے پر قابو پانے کے لیے مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے جو ہر سال ہزاروں اموات اور دنیا بھر میں لوگوں کے لیے ناقابل بیان نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بین الاقوامی کی پیداوار منشیات کے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت
مصنوعی ذہانت کیا کمال دکھا رہی ہے ۔ اس کا حال ہی میں ایسا ثبوت سامنے آیا ہے کہ برطانوی سائنسدان بھی اس کے کرشمے پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔
برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ طبی ادارے امپریل کالج لندن سے وابستہ طبی ماہر اس بات پر تحقیق کر رہے تھے کہ اینٹی بائیو ٹیکس کچھ ناقابل علاج امراض پر اثر کیوں نہیں کرتیں۔ وہ اس تحقیق میں پچھلے بارہ برس سے مصروف تھے لیکن پچھلے ہفتے پروفیسر جوز نے گوگل کے نئے آئی ٹی تحقیقی ٹول 'سائنٹسٹ کو' سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو پروفیسر اور دیگر سائنسدان یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہ بارہ سال طویل تحقیق کے بعد جن نتائج پر پہنچے تھے وہی 'کوسائنٹسٹ ' نے صرف2دن میں نکال دیے ۔
ایک طرف ترقی یافتہ دنیا اے آئی کے میدان میں زقندیں ماررہی ہے تو دوسری طرف آپ دیکھیں افغانستان میں کیا ہورہا ہے ۔ وہاں گھروں کی کھڑکیوں کو تختے لگا کر بند کیا جارہا ہے تاکہ عورتیں گھر سے باہر نہ جھانک سکیں ۔ نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ اس طرح انھیں مزید قید کیا جارہا ہے جو پہلے ہی حالت قید میں ہیں ۔ 6سال سے زیادہ عمر کی بچی اسکول نہیں جا سکتی ۔ کیونکہ طالبان کو اس میں ایک عورت نظر آتی ہے ۔
ان کی باریک بینی کا اندازہ لگائیں اور اس کی داد دیں ۔ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک فحاشی اور بے حیائی ہے ۔ ان کے دماغوں میں عورت بس ایک جنس کا نام ہے ۔ چاہے وہ کمسن بچی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان کا دماغ اسے بہن یا بیٹی کے روپ میں قبول نہیں کرسکتا ۔
افغانستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو جن حالات کا سامنا ہے یقیناً دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ افغانستان میں خواتین کو ان بدترین حالات میں مبتلا کرنے والا صرف اور صرف امریکا اور اس کا پالا ہوا، انتہاپسند طبقہ ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ جاتے جاتے مفت میں ہی تخت کابل ان طالبان انتہاپسندوں کے حوالے کرگیا۔ جب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ، میں شائد واحد قلم کار تھا جو اس بات کی مسلسل نشاندہی کررہا تھا کہ یہ انخلاء ایک ڈیل کے تحت ہوا ہے ۔
طالبان کو اقتدار اس ڈیل کے تحت ملا ہے۔ حال ہی میں اس کا انکشاف صدر ٹرمپ کے اس مطالبے پر ہوا، جس میں انھوں نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ انھیں دیا گیا، امریکی اسلحہ واپس کریں۔ ابھی تو افغان طالبان نے یہ اسلحہ واپس کرنے سے انکارکردیا ہے جس کی مالیت 7ارب ڈالر ہے کیونکہ انھوں نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے ۔اس طرح آخر کار اس ڈیل کا بھانڈا پھوٹ گیا جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہوئی تھی ۔ردعمل میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کو دی جانے والی وہ خیرات معطل کردی جو 60ملین ڈالر ہفتہ وار پر مشتمل تھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ یہ سودی امداد معطل ہونے سے افغانستان میں مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اور غربت مزید بڑھ گئی ہے ، افغانستان کی نصف آبادی جو پہلے ہی سے غربت کا شکار ہے اب اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ اب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ آج کا افغانستان اور اس سے ملحقہ وسط ایشیاء علاقے ہمیشہ سے برصغیر پاک وہند کے زرخیز خطے کی مرہون منت رہے ہیں۔
برصغیر پاک وہند کا زرخیز خطہ صدیوں سے وسط ایشائی علاقے کے لوگوں کو غلہ، کاٹن اور دیگر اشیاء مہیا کرتا رہا ہے ۔ وسط ایشیا میں ہونے والی مقامی اقتداری جنگ ہمیشہ برصغیر تک پہنچی ہے، اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں اقتدار کی لڑائیوں میں حکمران درباریوں کا ایک طاقتور گروپ ہمیشہ وسط ایشیاء و ایران کے حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرکے انھیں مدد کے لیے بلاتا رہا ہے ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔
یہ حملہ آور مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے آتے رہے ، ان حملہ آوروں کے مقامی اتحادی برصغیر پاک و ہند میں اقتدار حاصل کرتے رہے اور معاوضے میں غیرملکی حملہ آور اربوں کھربوں کا مال و دولت لوٹ کر واپس جاتے ہیں۔ اب تقریباً دو سو برس سے یہ سہولت ختم ہوچکی ہے، البتہ سرد جنگ کے فائنل راونڈ میں سوویت یونین اور امریکا و اتحادیوں کے درمیان افغانستان میں جو معرکہ ہوا، اس کے نتیجے میں ڈالروں کی فراوانی ہوئی تو پرانی امنگ دوبارہ جاگ گئی ہیں۔اب ان خوارجی دہشتگردوں کے مقامی سہولت کار، مددگار ، ہمدرد جو ہمارے شہروں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ خوارج پاکستان پر قبضہ کرکے انھیں دوبارہ اقتدار پر بٹھائیں گے۔