اترپردیش کے بجٹ میں "گائے" اور "مذہبی سیاحت" ترجیحات میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ریاست میں 20 فیصد مسلم آبادی کو آوارہ گائے کے بجٹ سے بھی کم اہمیت دی گئی۔ مدارس کا بجٹ ختم کر دیا گیا ہے، جو غریب مسلمانوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ مسلم طلبہ کے وظائف میں اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلم لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 80 فیصد ہے۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارتی ریاست اترپردیش کے بجٹ میں "گائے" اور "مذہبی سیاحت" کو ترجیح دی گئی۔ 2000 کروڑ روپے "گائے" کی حفاظت کے لئے اور 900 کروڑ "مذہبی سیاحت" پر خرچ ہوں گے، جبکہ اقلیتی بجٹ میں کمی کی گئی، ساتھ ہی ساتھ کھیلوں کو بھی کم فنڈ دیا گیا۔ نریندر مودی کی معیشتی پالیسی نے ایک اور کمال کر دکھایا ہے۔ سالانہ بجٹ کو ایک مذہبی دستاویز میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جس میں سب سے زیادہ ذکر مندروں اور مذہبی سیاحت کا ہوتا ہے۔ جب جنوبی ہندوستان کی غیر بی جے پی حکومتیں ٹیکس کی غیر مساوی تقسیم پر تشویش ظاہر کر رہی تھیں، بی جے پی نے "مہا کمبھ" کو اپنے لئے ایک موقع کے طور پر دیکھ لیا۔ اسی وقت جب اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ مہا کمبھ (ہندو تہوار) کے لئے ریاستی خزانے سے 7,500 کروڑ روپے خرچ کرکے تین لاکھ کروڑ روپے کی معیشت بنانے کا دعویٰ کر رہے تھے تو ریاست کے وزیر خزانہ سریش کمار کھنہ کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔
20 فروری کو جب وزیر خزانہ سریش کمار کھنہ نے ریاست اترپردیش اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش کیا تو ان کی تقریر کا پہلا حصہ مکمل طور پر مہا کمبھ (ہندو تہوار) کے لئے مختص تھا۔ 144 سال بعد آنے والے اس موقع کی اہمیت کا ذکر انہوں نے اپنے بجٹ خطاب کے آغاز میں ہی کر دیا۔ یہی نہیں راجستھان کے بجٹ کا بھی یہی حال تھا۔ 19 فروری کو راجستھان اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے نائب وزیراعلٰی دیا کماری نے کہا کہ وزیراعلٰی بھجن لال شرما نے پریاگ راج (الٰہ آباد) میں "ہندو مذہبی نہانے" کے دوران جو اعلانات کئے تھے، انہیں بجٹ میں پورا کیا جا رہا ہے۔ ان اعلانات میں مندروں کے لئے خصوصی انتظامات اور پجاریوں کے وظیفے میں اضافہ بھی شامل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راجستھان کے وزیراعلٰی نے پوری کابینہ کے ساتھ 19 جنوری کو پریاگ راج کے لئے پرواز بھری اور وہاں نہانے کے بعد کابینہ میٹنگ کی، شاید بجٹ کے اہم فیصلے بھی وہیں ہوئے۔ اترپردیش کے مالی برس 2025ء - 2026ء کے بجٹ میں دو نمایاں موضوعات نظر آتے ہیں، گائے اور مذہبی سیاحت۔ ریاست میں آوارہ گائے کی دیکھ بھال کے لئے 2,000 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم کی اہمیت کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ریاست بھر میں کھیلوں کی ترقی کے لئے صرف 400 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، یعنی آوارہ گائے کو کھیلوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ فنڈ ملا ہے۔ گائے کی حفاظت کے مراکز کے لئے 140 کروڑ روپے اور جانوروں کے اسپتالوں کے لئے 123 کروڑ روپے الگ رکھے گئے ہیں۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بجٹ میں "گائے ونش" یعنی صرف گائے کا ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ مویشی کا۔ پورے بجٹ میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ دیگر کاروباری یا زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے جانوروں جیسے بکری، گھوڑا، خچر وغیرہ کے لئے حکومت کی کوئی پالیسی ہے یا نہیں۔ ریاست اترپردیش میں اس وقت آوارہ گائیوں کی تعداد کا کوئی مصدقہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ 2019ء کی مویشی مردم شماری کے مطابق ریاست اترپردیش میں 12 لاکھ کے قریب آوارہ جانور موجود تھے، جن میں 10 لاکھ کے قریب گائے ہوسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ہر آوارہ گائے، بھینس یا بیل کے لئے سالانہ 20 ہزار روپے کا انتظام کر دیا ہے، جبکہ کسانوں کو "پردھان منتری کسان سمان ندھی" اسکیم کے تحت سالانہ صرف 6000 روپے دئیے جاتے ہیں۔
گائے کے بعد بجٹ میں جس چیز کو اہمیت دی گئی، وہ "مذہبی سیاحت" ہے۔ یہاں "تیرتھ یاترا" نہیں بلکہ "مذہبی سیاحت" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی حکومت جو رقم مندروں اور مذہبی مقامات پر خرچ کر رہی ہے، وہ درحقیقت سیاحت کے بجٹ میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لئے 900 کروڑ روپے سے زیادہ کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ ورنداون کے بانکے بہاری مندر کا کاریڈور بنانے میں 200 کروڑ روپے خرچ ہوں گے، مرزا پور میں وندھیا واسنی مندر کی پوجا کے لئے 200 کروڑ، ایودھیا مندر کی ترقی کے لئے 150 کروڑ، متھرا مندر کے لئے 125 کروڑ، چترکوٹ مندر کے لئے 50 کروڑ، نیمشارنّیہ تیرتھ (مندر) کی ترقی کے لئے 100 کروڑ، نیمشارنّیہ مندر کے لئے 100 کروڑ خرچ ہوں گے، جبکہ ریاست کے وزیراعلٰی سیاحت ترقیاتی منصوبہ کے لئے 400 کروڑ علیحدہ سے مختص کئے گئے ہیں۔
اس کے برعکس بودھ سرکٹ کے لئے صرف 60 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، جو پچھلے برس بھی اتنے ہی تھے، لیکن نظرثانی شدہ تخمینے میں اسے 92.
2016ء 2017ء میں اقلیتی بجٹ 3,055 کروڑ روپے تھا، جس میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ مدارس کا بجٹ ختم کر دیا گیا ہے، جو غریب مسلمانوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ مسلم طلبہ کے وظائف میں اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلم لڑکیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ 80 فیصد ہے۔ بجٹ پیش ہونے کے بعد اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ یہ "سناتن" کو وقف ہے۔ اگر سناتن بجٹ کا مطلب یہ ہے کہ کھیلوں کی ترقی، اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور دیگر شعبوں کو نظرانداز کرکے سارا زور گائے اور مذہبی سیاحت پر دیا جائے، تو یہ بجٹ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب رہا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب کس قیمت پر ہو رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاست اترپردیش کر دیا گیا ہے کے وزیراعل ی مذہبی سیاحت اترپردیش کے آوارہ گائے کے بجٹ میں کروڑ روپے اور مذہبی یہ ہے کہ کی ترقی کیا گیا گئے ہیں ی سیاحت کے لئے
پڑھیں:
بھارت میں گائے کا کاروبار جرم بن گیا، مسلمانوں میں خوف و ہراس
اقلیتیں بالخصوص مسلمان مودی کے ہندوتوا نظریے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں
مسلمانوں کے گائے رکھنے پر قانون ، 10 سال قید کی سزا اور 5 لاکھ تک جرمانہ
مودی سرکار کے تیسرے دورِ اقتدار میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان مودی کے ہندوتوا نظریے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور بی جے پی حکومت بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر آئے روز متعصبانہ اور انتہا پسندانہ قوانین نافذ کرنا معمول بنا چکی ہے، ان تمام ہتھکنڈوں کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنا اور انہیں دبا ؤمیں رکھنا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر گائے تاجروں پر گائے رکھشکوں کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و ستم میں اضافہ ہوتا جارہاہے ،بھارت کی دودھ کی صنعت سب سے بڑی ہے مگر گائے کے تحفظ کے قوانین مسلمانوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ بھارت کے بیشتر حصوں میں بیف کھانے پر پابندی جبکہ گائے ذبح کے خلاف کالے قوانین ہیں۔ 2014 میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد گائے کو سیاست کا واضح نشان بنا دیا گیا، بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں گائے تحفظ کے قوانین کی سختی بڑھ گئی ہے اور بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے گائے رکھنے پر قانون بنا کر 10 سال قید کی سزا اور 5 لاکھ تک جرمانہ بڑھا دیا۔ رپورٹ کے مطابق سخت قوانین نے عید کے موقع پر بھی گائے کے ذبح کے خوف کو بڑھا دیا، گائے رکھشکوں کی جانب سے گائے کی نقل و حمل پر مسلمانوں پر حملے اور قتل معمول بن چکے ہیں، ان سب میں بھارتی پولیس بھی گائے کی نقل و حمل کرنے والوں کو پریشان کرنے میں ملوث ہے۔ گائے رکھشک، تاجروں بالخصوص مسلمان تاجروں کی گاڑیوں کو روک کر پولیس پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ گاڑی کو ضبط کر لیں۔