اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کے لیے اپنی شرط رکھ دی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈئین سار نے یروشلم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر اس صورت میں عملدرآمد ہو سکتا ہے کہ غزہ کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے اور تمام مغوی رہا کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں اسرائیل نے غزہ جنگ بندی معاہدے میں توسیع کی منظوری دے دی

انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حماس اور اسلامی جہاد غزہ سے نکل جائیں، اگر ہمارے اس مطالبے کو مان لیا جاتا ہے تو کل ہی غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو سکتا ہے۔

حماس کا اسرائیل کے مطالبے پر ردعمل

دوسری جانب فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کے ہتھیار حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے لیے سرخ لکیر ہیں اور ان پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے تحت حماس باقی رہ جانے والے اسرائیلی مغویوں کو رہا کرےگا، جبکہ اسرائیلی فوج غزہ سے اپنا مکمل انخلا یقینی بنائےگی۔

گزشتہ روز اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو خبردار کیا تھا کہ اگر ہمارے یرغمالی رہا نہ کیے گئے تو ناقابل تصور نتائج بھگتنا پڑسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں حماس کا اسرائیلی وزیر اعظم پر غزہ جنگ بندی کو سبوتاژ کرنے کا الزام

یہ بھی واضح رہے کہ غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیل اور حماس نے قیدیوں کا تبادلہ کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل اسرائیلی وزیر خارجہ حماس شرط رکھ دی غزہ جنگ بندی وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیلی وزیر خارجہ شرط رکھ دی وی نیوز جنگ بندی کے دوسرے مرحلے اسرائیلی وزیر کے لیے کہ غزہ

پڑھیں:

جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ، ’مکمل ڈی ملٹرائزیشن‘ کا اسرائیلی مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ رواں برس جنوری میں طے پانے والی غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کے لیے اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ غزہ کو 'مکمل طور پر غیر مسلح‘ کیا جائے اور حماس کو وہاں سے نکالا جائے۔

اسرائیل کا غزہ کو اشیائے صرف کی ترسیل کی معطلی کا اعلان

اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت

یروشلم میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سار کا کہنا تھا، ''ہمارا دوسرے مرحلے پر اتفاق رائے نہیں ہے۔

ہم غزہ کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، حماس اور اسلامی جہاد کو نکالا جائے اور ہمارے یرغمالی ہمیں واپس کیے جائیں۔

(جاری ہے)

اگر وہ اس پر اتفاق کرتے ہیں تو ہم کل ہی عملدرآمد شروع کر سکتے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں طے پانے والا غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر عملدرآمد 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس کی مدت یکم مارچ کو ختم ہو گئی۔

غیر مسلح ہونا 'ریڈ لائن‘ ہے، حماس رہنما

ادھر حماس کے ایک رہنما سامی ابو زھری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے میں توسیع کے لیے غیر مسلح ہونا ان کی تحریک اور دیگر فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کے لیے ایک سرخ لکیر ہے: ''تحریک کے ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی بھی بات بے وقوفی ہے۔ تحریک کے ہتھیار حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے لیے ایک سرخ لکیر ہیں۔

‘‘

ابو زھری کا یہ بیان اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار کی طرف سے غزہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کے کچھ دیر بعد سامنے آیا۔

جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ، اسرائیل کا متبادل منصوبہ

اسرائیل نے رواں ہفتے ایک نیا امریکی جنگ بندی منصوبہ پیش کیا ہے۔ یہ منصوبہ اس سے مختلف ہے، جس پر اسرائیل اور حماس نے جنوری میں اتفاق کیا تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اسے 'وٹکوف پروپوزل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی اور صرف اتنا کہا ہے کہ اسرائیل جو بھی اقدام کرے گا وہ اس کی حمایت کرتا ہے۔

نیتن یاہو کا یہ بیان جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہو گا کیونکہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ ابھی طے نہیں ہوا ہے۔

نئے منصوبے کے تحت حماس کو جنگ بندی میں توسیع اور دیرپا جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے وعدے کے بدلے اپنے باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔

اسرائیل نے مزید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا کوئی ذکر نہیں کیا جو پہلے مرحلے کا ایک اہم جزو ہے۔

حماس نے اسرائیل پر موجودہ معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس میں دونوں فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مزید فلسطینی قیدیوں کی واپسی، غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا اور دیرپا جنگ بندی کے بدلے باقی یرغمالیوں کی واپسی پر بات چیت کریں۔ لیکن کوئی ٹھوس بات چیت نہیں ہوئی ہے۔

اتوار دو مارچ کو اسرائیل نے غزہ کی 20 لاکھ آبادی کے لیے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر اشیا کی فراہمی روک دی تھی اور دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے نئی تجویز کو قبول نہیں کیا تو 'اضافی نتائج‘ برآمد ہوں گے۔

حماس اور اس کے اتحادیوں نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں 1215 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ حماس نے اس حملے کے دوران 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا۔ غزہ میں اب بھی 62 یرغمالی موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 35 ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 48,319 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

ا ب ا/ا ا، ر ب (اے ایف پی، اے پی)

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ، ’مکمل ڈی ملٹرائزیشن‘ کا اسرائیلی مطالبہ
  • اسرائیلی وزیر خارجہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کیلئے شرط رکھ دی
  • جنگ بندی کیلئے غزہ کا مکمل غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی قیدیوں کی واپسی لازمی شرط ہے، صیہونی وزیر خارجہ
  • یرغمالیوں کو رہا کرو ورنہ بھیانک نتائج کے لیے تیار ہو جاؤ، نیتن یاہو کی حماس کو دھمکی
  • حماس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی اسرائیلی درخواست مسترد کر دی
  • اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت
  • حماس نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی اسرائیلی درخواست مسترد کردی
  • غزہ کی تعمیرنو کا منصوبہ تیار، جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کیلئے کاوشیں تیز کریں گے، مصر
  • اسرائیل نے غزہ میں امداد اور سامان کی ترسیل روک دی