UrduPoint:
2025-03-04@16:59:51 GMT

سفید پوش طبقے کا رمضان

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

سفید پوش طبقے کا رمضان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی خلیج بہت سے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ عالمی عدم مساوات کے ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کے پاس ملک کی 64 فیصد دولت ہے جبکہ 50 فیصد آبادی کی صرف چار فیصد دولت تک رسائی ہے۔

ایک طرف اشرافیہ ہیں جو رمضان کو بھی سماجی روابط بڑھانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

سحر و افطار کی بڑی بڑی دعوتوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان دعوتوں کے لیے ڈیزائنرز ہر سال رمضان کلیکشن کے نام سے کپڑے بھی متعارف کراتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں سحری اور افطاری کی بہت سی ڈیلز پیش کی جاتی ہیں۔ گھر میں منعقد کی گئی دعوتوں میں بھی انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سب دعوتوں اور تقریبات کی تشہیر سوشل میڈیا پر بھی بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے، یعنی یہ طبقہ سارا مہینہ پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے پر لاکھوں روپے با آسانی خرچ کر دیتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف وہ غریب طبقہ ہے جو صدقہ خیرات اور امداد پر بہت حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جہاں سارے خاندان کے لیے دو سے تین وقت کا کھانا، موسم کے اعتبار سے مناسب کپڑے پہننا اور رہنے کے لیے مناسب جگہ بھی مشکل ہے۔

پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کے مطابق پاکستانی ہر سال 240 بلین روپے یعنی دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ فلاحی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔

چونکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ماہ رمضان میں ہر نیکی کا صلہ کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ اسی مہینے میں بڑھ چڑھ کر فلاحی کام کرنے اور غریبوں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جگہ جگہ مفت افطار کے لنگر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

افطاری اور پورے ماہ رمضان کا راشن بانٹنے کا بھی عام رواج ہے۔ یعنی ملک کا سب سے غریب طبقہ اس مہینے میں کی جانے والی مدد سے خوب مستفید ہوتا ہے۔

مفت چیزیں بانٹنے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ صدقہ خیرات اور راشن کو اپنا حق سمجھ کر تقاضا کیا جاتا ہے۔ بازار میں جا کر کوئی بھی چیز خریدنا چار پانچ فقیروں سے بحث کیے بغیر ناممکن ہو جاتا ہے۔

ان دونوں طبقات کے درمیان ایک تنخواہ دار متوسط سفید پوش طبقہ رمضان کی مہنگائی سے سب سے زیادہ پستا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کی عزت نفس کسی سے مدد کا مطالبہ کرنا گوارا نہیں کرتی اور نہ ہی یہ صدقہ خیرات قبول کرتے ہیں۔ یہ طبقہ عام طور پر کچھ بچت کر کے اور کفایت شعاری سے اپنا بھرم قائم رکھتا ہے مگر یہ کمر توڑ مہنگائی اس بھرم کے لیے بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ ایک بال بچے دار انسان جس نے بچوں کے تعلیمی اخراجات، گھر کے بل ادا کرنے کے ساتھ چولہا بھی جلائے رکھنا ہے اس کے لیے یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کسی آزمائش سے کم نہیں۔

سوشل میڈیا پر کی گئی امارت اور فضول خرچی کی تشہیر بھی عام انسان کی زندگی کو مزید اضطراب اور بے سکونی کا شکار کرتی ہے۔ ہر طرف مہنگے اور لذیذ کھانے اور برینڈڈ چیزیں دیکھنا اور ان تک رسائی نہ رکھنا چھوٹے بچوں میں بھی احساس کمتری پیدا کرتا ہے اور ان کا مخلتف اشیاء کے لیے تقاضا کرنا والدین کے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طبقے کے کچھ لوگ جو گھریلو ملازمین رکھتے ہیں ان پر ان ملازمین کی طرف سے بھی رمضان میں راشن لے کے دینے کا بہت دباؤ ہوتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کی طرف سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے اور ایک عام انسان کی زندگی کو آسان بنایا جائے تاکہ اس بابرکت مہینے کو سب لوگ ایک ہی طرح سے خوشی اور اطمینان کے ساتھ گزار سکیں۔ لیکن بد قسمتی سے کیا ہونا چاہیے ایک مفروضہ ہے اور اصل میں کیا ہوتا ہے وہی حقیقت ہے۔

اس سلسلے میں مخیر حضرات کوشش کر کے سارا زور صرف لنگر اور مفت بانٹنے کی بجائے سستے بازار اور کم قیمت اشیاء کی خریداری کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

تاکہ سفید پوش طبقہ عزت نفس مجروح کیے بغیر خوشی اور اطمینان کے ساتھ اس بابرکت مہینے کو گزار سکے۔

معاشرے میں رائج عدم مساوات بڑھتی چلی جا رہی ہے اور مل کر ایک دوسرے کا خیال کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ مدد کر سکیں تو وہ صرف بازاروں میں فقیروں تک اس مدد کو محدود نہ کریں۔ سب سے پہلے اپنے آس پاس اپنے خاندان اور اپنے ہمسائے میں ان سفید پوش لوگوں کی خاموشی سے مدد کریں۔

مدد کے بہت سے باپردہ طریقے ہو سکتے ہیں جیسے کہ چپکے سے کسی بچے کی فیس ادا کر دیں، کسی کے گھر کی بجلی کا بل ادا کر دیں اور غیر اعلانیہ ان کی زندگیاں آسان بنائیں۔ بد قسمتی سے ہم صرف حکومت پر تکیہ کرکے اپنے ملک کی ایک بڑی آبادی کو ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سفید پوش کے لیے

پڑھیں:

”احساس رمضان“ نشریات کا ”جیو ٹی وی“ پر آغاز

ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ”جیو ٹی وی“ نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ناظرین کیلئے ”احساس رمضان“ نشریات کا اہتمام کیا ہے۔ 

ماہِ رمضان کی آمد سے جہاں سج رہے ہیں برکتوں کے کون و مکاں وہیں شائقین کی منتظر نگاہوں کیلئے جیو ٹیلی ویژن لا رہا ہے سحر اور افطار کے خصوصی پروگرام جس میں تاریخ کی تمثیل بھی ہے اور صبر کے امتحان بھی، سبق آموز سیریز بھی ہے اور لذت بھرے پکوان بھی۔ 

ناظرین کو بھرپور اور معیاری انٹرٹینمنٹ کی فراہمی کے عزم کے ساتھ جیو ٹیلی ویژن نے اس بار بھی ”احساس رمضان“ کی خصوصی نشریات تشکیل دی ہیں۔ 

اُم عائشہ کے سیزن 2 میں صبر کیسے ہوگا؟ قسمت پر مہربان، تاریخ کا دھارا بدلتا نظر آئے گا کرولوس عثمان میں، سزا اور جزا کے تصور کو اُجاگر کرتی نظر آئے گی سبق آموز کہانیوں کی مقبول عام سیریز مکافات کا سیزن 7۔

ہر سحر میں لذت کے ساتھ ہوں گے غذائیت بھرے پکوان اور ہر افطار میں چٹخاروں سے ہوگا اہتمام۔ اس کے ساتھ ساتھ چلبلے پن سے مسکراہٹیں بکھیرنے آرہا ہے ایک ایسا کردار جس میں حالات ہیں کٹھن اور عرشی کا رستہ ہے دشوار۔ڈاکٹر سہام کا ساتھ کیسے زندگی کو بنائے گا گلزار؟۔ 

یہ سب کچھ ناظرین ڈرامہ سیریل ”آس پاس“ میں یکم رمضان سے روزانہ شب 9 بجے ملاحظہ کریں گے۔ ڈرامے کے پروڈیوسرز عبداللّٰہ کادوانی اور اسد قریشی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں جی ڈی پی کی گروتھ بہت ہی کم ہو رہی ہے
  • بُک شیلف
  • رمضان المبارک
  • ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان
  • رمضان کی آمد مبارک!!
  • کراچی میں متوسط طبقے کے بچوں کی تفریح کا باعث بننے والی سائیکل کی قیمت میں 70 فیصد اضافہ
  • تنخواہ دار طبقہ ودہولڈنگ ٹیکس کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا، چھ ماہ میں 265.74 ارب روپے کی ادائیگی
  • مرض کوفت
  • ”احساس رمضان“ نشریات کا ”جیو ٹی وی“ پر آغاز