ہمارا معیشت کو ڈیفالٹ سے بچانا کچھ عناصر کو ہضم نہیں ہو رہا: اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد: نائب وزیراعظماسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہمارا معیشت کو ڈیفالٹ سے بچانا کچھ عناصر کو ہضم نہیں ہو رہا۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کرتے ہوئے کہا کہ مسابقتی کمیشن صارفین کے حقوق کے تحفظ کا ذمےدار ہے۔انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں چیلنجز کا بہترانداز میں مقابلہ کریں گے، معیشت کی بہتری کے لیے نوجوان صلاحیتیں بروئے کار لائیں.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان کے حکمران قرض لیکر معیشت کو مزید کمزور کر رہے ہیں، علامہ جواد نقوی
لاہور میں تقریب سے خطاب میں سربراہ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسیت اور عدلیہ میں آئی ایم ایف کا براہ راست اثر بڑھتا جا رہا ہے، قومی فیصلے یرونی مالیاتی ادارے کر رہے ہیں، اصل بحران دیوالیہ پن نہیں، بلکہ خودمختاری کا خاتمہ ہے،گزشتہ سال آئی ایم ایف کا وفد نہ صرف پاکستانی جیلوں میں قیدی سیاستدانوں سے ملا، بلکہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی۔ یہ محض رسمی ملاقاتیں نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کی عدالتیں بھی مالیاتی اداروں کے مفادات کیخلاف فیصلے نہ کریں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا تھا کہ اس وقت پاکستان کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک کمزور معیشت ہے، جو مسلسل بحران کی لپیٹ میں ہے، دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ملک کو موجودہ حکومت نے اپنی انتھک کوششوں سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے، ہمارے وزیراعظم مسلسل عالمی دورے کر رہے ہیں، کبھی ازبکستان، کبھی آذربائیجان، کبھی تاجکستان، یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جہاں خود معیشت بحران میں ہیں، وہاں بھی پاکستانی قیادت مدد کی امید لئے پہنچ رہی۔ ان کی کاوشوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو بظاہر دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا گیا، لیکن حقیقت میں ملک کو ایک دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس اپنے بنیادی اخراجات، قرضوں کی ادائیگی اور روزمرہ کے اخراجات کیلئے وسائل باقی نہ رہیں۔ یعنی قومی خزانہ خالی ہو جائے، تنخواہیں دینا ممکن نہ رہے اور ملک مکمل طور پر مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے۔ حکومت فخریہ انداز میں یہ اعلان کر رہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کس قیمت پر؟ اس مقصد کیلئے حکومت نے آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے بے تحاشہ قرضے لیے، جن میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، عرب بینک اور ملکی بینک شامل ہیں۔ قرضے لینا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، لیکن ان کی شرائط تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں، اور یہی پاکستان کیساتھ ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کوئی خیرات تقسیم کرنیوالا ادارہ نہیں، بلکہ ایک ایسا مالیاتی شکنجہ ہے جس میں جو ملک پھنس جائے، وہ خودمختاری کھو دیتا ہے، اس ادارے نے ارجنٹائن، ملیشیا، فلپائن سمیت کئی ممالک کو معاشی طور پر مفلوج کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی صورتحال مختلف نہیں۔ اب ملک کی مالیاتی پالیسیاں حکومت نہیں بلکہ آئی ایم ایف طے کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال آئی ایم ایف کا وفد نہ صرف پاکستانی جیلوں میں قیدی سیاستدانوں سے ملا، بلکہ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی ملاقات کی۔ یہ محض رسمی ملاقاتیں نہیں، بلکہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان کی عدالتیں بھی مالیاتی اداروں کے مفادات کیخلاف فیصلے نہ کریں۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالتوں کے فیصلے بھی اب آئی ایم ایف کی نگرانی میں ہوں گے؟ کیا اب یہ طے کرے گا کہ کون سا سیاستدان کب تک جیل میں رہے گا اور کس کو ضمانت ملے گی؟