چین میں چودہویں قومی عوامی کانگریس کا تیسرا اجلاس بدھ کو شروع ہو گا
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
بیجنگ: 14 ویں قومی عوامی کانگریس (این پی سی) کے تیسرے اجلاس سے متعلق 4 مارچ کو عظیم عوامی ہال میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں این پی سی کے ترجمان لو چھین جیئن نے اجلاس کے ایجنڈے اور این پی سی کے امور کے بارے میں چینی اور غیر ملکی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیئے۔منگل کے روز ترجمان نے بتایا کہ 14 ویں قومی عوامی کانگریس کا تیسرا اجلاس 5 مارچ کی صبح شروع ہوگا اور 11 مارچ کی سہ پہر کو اختتام پذیر ہوگا۔ سات روزہ اجلاس کے دوران مجموعی طور پر 3 کل رکنی اجلاس منعقد ہوں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اگر آپ بچیں گے تو
جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے ہیں‘ عمر 78سال ہے‘ مینی سوٹا میں پیدا ہوئے‘ میرین فورسز نارتھ سے وابستہ رہے‘ لیفٹیننٹ جنرل کے رینک سے ریٹائر ہوئے‘ سیاست میں آئے‘ ری پبلکن پارٹی جوائن کی اور 2017 سے مشی گن سے کانگریس مین ہیں‘ مشی گن میں ایک پاکستانی بزنس مین اسد ملک بھی رہتے ہیں‘ یہ ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ ہیں‘ 2018میں ان کا شمار امریکا کے 500 تیز ترین ترقی کرنے والے بزنس مینوں میں ہونے لگا‘ یہ اس وقت بھی نوجوان ارب پتیوں میں شامل ہیں‘عمران خان کے معاون اور فنانسر ہیں‘ امریکا میں آباد پاکستانیوں نے ’’پاک پیک‘‘ کے نام سے تھنک ٹینک بنا رکھا ہے۔
اس تنظیم میں زیادہ تر عمران خان سے وابستہ پاکستانی شامل ہیں‘ اسد ملک پاک پیک کے ڈائریکٹر اور صدر ہیں‘اسد ملک کے والد ڈاکٹر غوث ملک جیک برگ مین کے خاندانی معالج اور دوست ہیں‘ اس نسبت سے اسد ملک کا جیک کے ساتھ رابطہ ہوا اور اس نے ان کے الیکشن اور سیاسی سرگرمیوں میں فنڈنگ شروع کر دی‘ عمران خان 9مئی 2023 کو گرفتار ہوئے تو پاک پیک اور اسد ملک ان کے حق میں آواز اٹھانے لگے‘ ملک صاحب کی محنت اور تعلق کی وجہ سے کانگریس مین جیک برگ مین نے بھی عمران خان کی رہائی کا جھنڈا اٹھا لیا اور یہ فری عمران خان کا نعرہ لگانے لگے‘ نومبر 2023 میں جیک برگ مین نے پاک فوج کے خلاف ایک بل کانگریس میں جمع کرایا‘ اس بل میں ان کا موقف تھا پاکستان میں فوج جمہوریت اور انسانی حقوق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ہمیں یہ رکاوٹ ہٹانا ہو گی‘ جیک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے ہمدرد اور پاک فوج کے مخالف بنتے چلے گئے یہاں تک کہ 22 جنوری 2025 کو محسن نقوی نے ان سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے فوراً بعد جیک برگ مین نے فری عمران خان کی ٹویٹ کر دی جس سے نقوی صاحب کو خاصی خفت اٹھانا پڑی‘ جیک نے اپنے کانگریس مین ساتھی تھامس سوازی (ٹام سوازی) کے ساتھ مل کر اکتوبر 2024 میں صدر جوبائیڈن کو خط بھی لکھا‘دونوں کانگریس مین کا خط میں موقف تھا امریکی انتظامیہ پاکستان کے فوجی افسروں کے ساتھ مل کر جمہوریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور عمران خان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
میں آپ کو یہاں کانگریس مین تھامس سوازی (ٹام سوازی) کے بارے میں بھی بتاتا چلوں ‘یہ نیویارک سے کانگریس مین ہیں‘ لانگ آئی لینڈ میں رہتے ہیں‘ کانگریس کے ممبر بننے سے پہلے مسلسل آٹھ سال نیویارک کے علاقے کوئینز کے میئر رہے ہیں‘ ڈیموکریٹ ہیں اور پاکستانی کاکس کے ممبر اور کو چیئر پرسن ہیں‘ یہ بھی خان کے حامی ہیں‘ پاک پیک کے زیر اثر ہیں اور فری عمران خان کمپیئن کا حصہ ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی آخری امید امریکی کانگریس مین‘ سینیٹرز اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھے‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا اس امید کا فیول امریکی پاکستانی ہیں اور ان لوگوں نے دوسری مرتبہ کمال کر دیا‘ امریکی پاکستانیوں نے پہلی مرتبہ 2005کے زلزلے میں کمال کیا تھا‘ یہ لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں اکٹھے ہوئے تھے اور انھوں نے خود بھی ملبے میں پھنسے پاکستانیوں کی دل کھول کر مدد کی اور امریکیوں سے بھی کرائی ‘ دوسرا موقع خان کی رہائی کی کوشش ہے۔
امریکا میں پاکستانی کمیونٹی نے جون 2024 میں پارلیمنٹ سے حیران کن قرارداد منظور کرا لی‘یہ قرارداد ریپبلکن سینیٹر رچرڈ میک آرمک نے 30نومبر 2023 کو پیش کی تھی‘ اسے 21مارچ 2024 کو امریکی کمیٹی برائے خارجہ امور کو بھیجا گیا اور اسے 24جون 2024کو ایوان نمایندگان میں غور کے لیے پیش کیا گیا‘قرارداد کے حق میں 361 ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں صرف سات ووٹ پڑے یوں یہ 98فیصد ووٹوں سے منظور ہو گئی‘ امریکی تاریخ میں بہت کم ایسی قراردادیں ہیں جو اتنے ووٹوں سے منظور ہوئی ہیں اوریہ امریکی پاکستانیوں کا واقعی کمال ہے‘ عمران خان نے امریکی پاکستانیوں کی مدد سے جیل سے برطانوی اور امریکی جریدوں میں تین سو مضامین اور انٹرویوز بھی شایع کرائے‘ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔
نریندر مودی مضبوط ترین انڈین لابی کے باوجود آج تک یہ نہیں کر سکے‘ ان لوگوں نے امریکا میں فری عمران خان کی کمپیئن چلوا دی اور رچرڈ گرنیل جیسے شخص سے عمران خان کے حق میں ٹویٹس بھی کرا دیں اور یہ اب کانگریس مین جوولسن سے پاکستان میں جمہوریت کا بل منظور کرانا چاہتے ہیں‘ ہم اگر کھلے دل سے اعتراف کریں تو یہ چھوٹی اچیومنٹس نہیں ہیں‘ ہم ریاستی سطح پر بھی آج تک امریکا میں پاکستان کی اتنی لابنگ نہیں کر سکے جتنی ان لوگوں نے خان کے لیے کر دی لیکن ایشو لابنگ‘ کمپیئن اور بلز نہیں ہے۔
ایشو خان کی رہائی اور سیاست میں واپسی ہے اور اس کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے‘سوال یہ ہے کیا مستقبل میں اس کے کوئی چانس موجود ہیں؟ اس کا جواب ہے نہیں ‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر امریکا کو عمران خان اور پاکستان اور ڈونلڈ ٹرمپ کو قیدی نمبر 804 اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو یہ صرف اور صرف پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا‘ یہ ان کا انتخاب کرے گا‘ یہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرے گا‘ آپ خود سوچیں عمران خان امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو کیا دے سکتا ہے جب کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کر سکتی؟۔ ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں‘ یہ دونوں کانگریس مین پی ٹی آئی کا اثاثہ تھے لیکن پھر درمیان میں طاہر جاوید اور ڈاکٹر کامران راؤ آ گئے۔
طاہر جاوید ہیوسٹن کے پاکستانی بزنس مین ہیں‘ پرائیویٹ کلینکس سمیت بے شمار بزنس چلا رہے ہیں‘ یہ امریکی سیاست میں بھی سرگرم ہیں‘ یہ پانچ چھ ماہ قبل جیک برگ مین سے ملے اور آہستہ آہستہ اسے دوسری سائیڈ دیکھنے پر قائل کر لیا‘ طاہر جاوید نے ٹام سوازی کو بھی قائل کر لیا یوں یہ جیک برگ مین‘ ٹام سوازی اور اپنے پرانے دوست کانگریس مین جوناتھن جیکسن کو لے کر 12 اپریل کو پاکستان آ گئے‘ ڈاکٹر کامران راؤ بھی ان کے ساتھ تھے‘ پی ٹی آئی امریکا کا خیال تھا یہ تینوں پاکستان میں جیل میں عمران خان سے ملیں گے‘ پی ٹی آئی کے قائدین‘ میڈیا پرسنز اور پریشر گروپس سے ملاقاتیں کریں گے اور عمران خان کی رہائی کے لیے کوشش کریں گے‘ یہ واپس آ کر امریکی میڈیا اور ڈونلڈ ٹرمپ کوبھی پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں بتائیں گے اور یوں اسٹیبلشمنٹ پریشرمیں آجائے گی لیکن یہاں پاکستان میں الٹ ہو گیا۔
کانگریس مین نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی اوریہ ملاقات ایک گھنٹے سے اڑھائی گھنٹے میں تبدیل ہوئی اور کانگریس مین ان کے فین ہو گئے‘ انھیں جب 9مئی اور 26 نومبر کے ثبوت دکھائے گئے تو کہانی پلٹ گئی‘ کانگریس مین چار دن پاکستان میں رہے‘ ان چار دنوں میں ان کی پی ٹی آئی کی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی‘ یہ میڈیا سے بھی دور رہے‘ ان کی صرف چار ملاقاتیں ہوئیں‘ آرمی چیف‘ امریکی ایمبیسی میں امریکی دوستوں سے ملاقات‘ محسن نقوی‘ ایاز صادق‘ احسن اقبال اور مریم نوازسے ملاقاتیں اوربس‘ پی ٹی آئی سے صرف فواد چوہدری اور ان کے بھائی فیصل چوہدری سے ان کی ملاقات ہوئی لیکن یہ بھی امریکی سفارت خانے میں کامن میٹنگ تھی جس میں عمران خان سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔
اسپیکر ایاز صادق کی دعوت پر عاطف خان اور ڈاکٹر امجد خان کانگریس مین سے ملے لیکن یہ ملاقات بھی کھانے کی میز پر ہوئی تھی اور سرسری تھی جب کہ پارٹی کی قیادت یعنی گوہر خان‘ سلمان اکرم راجہ‘ عمر ایوب اور شبلی فراز ذاتی لڑائیوں میں مصروف تھے لہٰذا یہ وقت نہیں نکال سکے‘ یہ لوگ اگر چاہتے تو ان کی کانگریس مین سے ملاقات ہو سکتی تھی‘ یہ دورہ اچانک نہیں تھا‘ پی ٹی آئی یو ایس اے ڈیڑھ ماہ سے دورے سے آگاہ تھی‘ معید پیرزادہ نے جیک برگ مین کے ساتھ باقاعدہ ’’پوڈ کاسٹ‘‘ کیا تھا جس میں جیک نے اپنے دورے کی تفصیلات بتائی تھیں‘ پی ٹی آئی یو ایس اے کے نمایندے عمران اگر کانگریس مین کی رہنمائی کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے چناں چہ اگر پارٹی قیادت چاہتی تو ملاقات ممکن تھی لیکن اس بار پھر یہ ثابت ہو گیا خان اگر جیل میں ہے تو اس کی وجہ خان کی ضد اور نااہل ساتھی ہیں۔
یہ لوگ عمران خان کو چھڑانا ہی نہیں جاہتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں عمران خان جس دن باہر آ گیا اس دن ان سب کا کیریئر ختم ہو جائے گا‘ ان کی کام یابی عمران خان کی جیل ہے‘ یہ جب تک جیل میں رہیں گے ہم اس وقت تک لیڈرز اور ہیرو رہیں گے لہٰذا میرا عمران خان کو مشورہ ہے آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ کریں اور چچا ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف دیکھنا بند کریں‘ معاملات کو سیٹل کریں‘ اسٹیبلشمنٹ آپ کو ضایع نہیں کرنا چاہتی‘ یہ آپ کو سیاسی لحاظ سے بھی بحال رکھنا چاہتی ہے چناں چہ آپ ہاتھ آگے بڑھائیں‘ جیل سے باہر آئیں اور تعمیری سیاست کریں‘ فائدہ اسی میں ہے ورنہ دوسری صورت میں آپ جب جیل سے نکلیں گے تو پارٹی ہو گی اور نہ فیملی اور اگر یہ سب ہوئے تو بھی آپ میں مقابلے کے لیے توانائی نہیں ہو گی‘ میرا مشورہ ہے بچوں اور بے وقوفوں سے جان چھڑائیں‘ عقل کو ہاتھ ماریں اور باہر آئیں‘ آپ اگر بچیں گے تو ہی سیاست کر سکیں گے۔