ملزم ارمغان نے کسی بات کا سیدھا جواب نہیں دیا، نشے میں لگ رہا تھا، ایف آئی اے تفتیشی ٹیم
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
کراچی:
مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایف آئی اے نے مرکزی ملزم ارمغان سے تفتیش کی ہے اور کہا ہے کہ ملزم نے کسی بات کا سیدھا جواب نہیں دیا وہ نشے میں لگ رہا تھا تفتیش دوبارہ ہوگی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم اور اینٹی منی لانڈرنگ ٹیم نے ارمغان اور شیراز سے تفتیش کی ہے۔ تفتیش کے بعد ایف آئی اے نے کہا ہے کہ 28 فروری کو پولیس کو خط لکھا کہ لیپ ٹاپ اور دیگر سامان ہمیں دیا جائے مگر پولیس نے اب تک ہمیں کوئی سامان فراہم نہیں کیا، پولیس کی ریڈ ٹیم کے بارے میں بھی معلومات فراہم نہیں کی جاسکیں۔
ایف آئی اے کے مطابق شیراز نے بتایا کہ وہ اس سے چھوٹے کے طور پر کام لیتا تھا، ارمغان نے کسی بات کا کوئی سیدھا جواب نہیں دیا، ارمغان نشے کی حالت میں لگ رہا تھا، الیکٹرانک ڈیوائسز کی فرانزک رپورٹ ملنے کے بعد ان سے دوبارہ تفتیش ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایف ا ئی اے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کا پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری علی محمد کو مبینہ غیرقانونی حراست میں رکھنے کے خلاف ایس پی سی ٹی ڈی، ایس ایچ او سیکرٹریٹ اور دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے علی محمد کے والد کی درخواست پر سماعت کی، جس میں پولیس کی غیرقانونی حراست کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ عدالت میں علی محمد کا سیکشن 164 کے تحت بیان بھی پیش کیا گیا، جسے ان کے وکیل شیرافضل مروت نے پڑھ کر سنایا۔ تاہم، ڈی ایس پی لیگل نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں ابھی تک بیان کی کاپی موصول نہیں ہوئی۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “آئی جی صاحب کو بتائیں، جیسے ہی کاپی موصول ہو، پولیس آفیشلز کے خلاف مقدمہ درج کریں۔” مزید برآں، جسٹس کیانی نے واضح کیا کہ ایف آئی آر درج ہوتے ہی ایس پی سی ٹی ڈی سمیت تمام ملوث افسران کو گرفتار کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی استدعا کی، تاہم جسٹس محسن اختر کیانی نے اسے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے: “کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی، اگر ایک بندہ تفتیش کر سکتا ہے تو تین کی ضرورت نہیں۔”
عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت سے قبل ایف آئی آر درج ہو جانی چاہیے، پھر تفتیش کے نتائج دیکھے جائیں گے۔ جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ “اگر ملزمان بے گناہ ہوں گے تو تفتیش میں سامنے آ جائے گا۔”
وکیل شیرافضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ ملوث افسران اہم پوزیشنز پر تعینات ہیں، اس لیے شفاف تفتیش ممکن نہیں۔ اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ “آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا جائے گا، پھر فیصلہ کریں گے کہ تفتیش کس نے کرنی ہے۔”
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 11 مارچ تک ملتوی کر دی۔