چین اور پاکستان کے مابین خلائی تعاون طویل تاریخ کا حامل ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
چین اور پاکستان کے مابین خلائی تعاون طویل تاریخ کا حامل ہے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 4 March, 2025 سب نیوز
اسلام آ باد:چین اور پاکستان نے پاکستانی خلابازوں کے انتخاب ، تربیت اور چین کے خلائی اسٹیشن مشن میں ان کی شرکت سے متعلق تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔منگل کے روز چینی میڈ یا نے ایک تجز یے میں کہا ہے کہ معاہدے کے مطابق پاکستانی خلابازوں کو چین میں منظم طریقے سے تربیت دی جائے گی اور آئندہ چند سالوں میں قلیل مدتی مشنز کے لیے چینی خلائی اسٹیشن میں داخل کیا جائے گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ چین نے کسی دوسرے ملک کے خلابازوں کا انتخاب اور تربیت کی ہے جو چین کے خلائی اسٹیشن کے لیے بین الاقوامی تعاون کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
یہ عمل چین اور پاکستان کے درمیان آہنی دوستی کو وسیع کائنات تک بھی وسعت دیتا ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان خلائی تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے: 1990 میں چین کے لانگ مارچ راکٹ نے پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ کو مدار تک پہنچایا ۔ پھر چھانگ عہ 6 مشن کی مدد سے پاکستان کا سیٹلائٹ چاند کے گرد اڑنے میں کامیاب ہوا ۔حالیہ معاہدے کے مطابق ، پاکستانی خلاباز “پے لوڈ ماہر” کی حیثیت سے خلائی اسٹیشن کے تجربات میں حصہ لیں گے، جس میں بائیو میڈیسن اور مائیکرو گریویٹی ریسرچ جیسے جدید شعبوں کا احاطہ کیا جائے گا، اور تحقیقی نتائج براہ راست دونوں ممالک کے سائنسی اور تکنیکی تعاون اور ترقی کو بڑھائیں گے.
کسی جگہ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ کیا خلائی ڈومین کسی ترقی پذیر ملک کے لئے ضروری ہے۔ بہرحال، عام لوگوں کے لئے، ستاروں سے بھرا آسمان بہت دور ہے، اور پیروں کے نیچے کی زمین زیادہ اہم ہے.اس سوال کا جواب چند سال پہلے ایک پاکستانی لڑکی کے پوچھے جانے والے سوال میں ہے۔ سال 2022 میں 17 سالہ پاکستانی لڑکی آسیہ اسماعیل نے خلاء میں موجود چینی خلابازوں کو ایک خط لکھا تھا۔ خط میں انہوں نے سوال کیا کہ اگر خلاء میں موجود بیجوں میں کائناتی تابکاری اور مائیکرو گریویٹی کی وجہ سے جینیاتی تغیرات ہوسکتے ہیں تو کیا ہم خلائی افزائش نسل کے ذریعے خشک سالی، سیلاب اور آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیج پیدا کر سکیں گے؟خشک سالی، سیلاب اور آب و ہوا کی تبدیلی انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز ہیں، اور اگر انہیں بیجوں کے ذریعے سے حل کیا جا سکتا ہے، تو اس کا زرعی ترقی اور ذریعہ معاش کے تحفظ پر گہرا اثر پڑے گا.
یہ چین اور پاکستان کے درمیان خلائی تعاون کے اہم منصوبوں میں سے ایک ہے۔ سال 2022 میں سات پاکستانی ادویاتی پودوں کے بیج شینزو-14 پر چین کے خلائی اسٹیشن میں داخل ہوئے تھے اور چھ ماہ کی خلائی تابکاری اور مائیکرو گریویٹی کے بعد زمین پر واپس آئے۔توقع کی جاتی ہے کہ ان بیجوں کے خلائی سفر سے جڑی بوٹیوں کی تناؤ کی مزاحمت اور فعال اجزاء کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور ان کے تحقیقی نتائج لاکھوں جنوبی ایشیائی باشندوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں جو روایتی ادویات پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ تعاون ہمیں بتاتا ہے کہ اوپر ستاروں والا آسمان اور ہمارے پیروں کے نیچے زمین کبھی بھی متضاد نہیں ہے۔ ایرو اسپیس سائنس اور ٹیکنالوجی کا زراعت سمیت لوگوں کے ذریعہ معاش کے ساتھ گہرا تعلق ہےاور دور دراز کائنات بھی ہماری زمین کا مضبوط ستون بن سکتی ہے۔اس وقت ایرو اسپیس کے میدان میں زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کا غلبہ ہے۔لیکن، چاہے وہ انسان بردار خلائی منصوبہ ہو یا چاند کا تحقیقاتی منصوبہ، چین دنیا بھر سے تجرباتی پے لوڈ جمع کر رہا ہے، اور بہت سے ترقی پذیر ممالک اس میں حصہ لے رہے ہیں۔
چین کے خلائی اسٹیشن میں داخل ہونے والے پہلے غیر ملکی خلاباز کا تعلق پاکستان سے ہوگا جس سے ترقی پذیر ممالک میں خلائی شعبے کی ترقی کو حوصلہ افزائی دی جائے گی۔ یہ نہ صرف بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر میں ایک اہم تجربہ ہے، بلکہ اچھائی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک واضح تشریح بھی ہے.جب پاکستان کے بیج خلا میں امید کی کرن پیدا کرتے ہیں، جب نوجوان کے دماغ میں خلا سے آنےوالے جوابی خط کی وجہ سے سائنس کے لیے جوش پیدا ہو، اور جب ترقی پذیر ممالک تعاون کے ذریعے خلاء کے فوائد بانٹتے ہیں، تو ہم نہ صرف تکنیکی کامیابیاں دیکھتے ہیں، بلکہ تہذیب کی گرمجوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔
اس گرمجوشی سے آسمان اتنا دور نہیں رہا ہے اور زمین مزید زرخیز بن رہی ہے۔ یہی چین کے ایرو اسپیس کا سب سے اہم پیغام ہوگا : حقیقی سائنسی اور تکنیکی تحقیقات کا حتمی مقصد ہمیشہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ چین کے تعاون نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ خلائی تحقیق چند ممالک کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ ایک ایسا علاقہ ہونا چاہئے جس کا اشتراک تمام انسانیت کر سکے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چین اور پاکستان کے خلائی تعاون کے خلائی
پڑھیں:
گلف ممالک کا انسدادِ منشیات کیلئے پاکستان سے مکمل تعاون کا اعادہ
—اسکرین گریبوفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی پاک گلف تعاون کونسل اینٹی نارکوٹکس کانفرنس کے وفود کے سربراہان سے ملاقات ہوئی ہے۔
وفد میں متحدہ عرب امارات کے محکمۂ اینٹی نارکوٹکس کے ڈی جی بریگیڈیئر سعید عبداللّٰہ السعویدی، قطر کے ڈی جی نارکوٹکس کرنل رشید ساری اور سعودی عرب کے ڈی جی نارکوٹکس میجر جنرل سعد بن سعود شامل تھے۔
عمان پولیس کے ڈی جی نارکوٹکس بریگیڈیئر محمدصالح علی اور بحرین کے ڈائریکٹر اینٹی نارکوٹکس محمد خالد بھی وفد کا حصہ تھے۔
ملاقات میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری، سیکریٹری داخلہ خرم آغا اور ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عبدالمعید بھی موجود تھے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان انسدادِ منشیات کے ہر شعبے میں تعاون کو مزید وسعت دینے کے لیے تیار ہے۔
وزیرِ داخلہ نے پاک جی سی سی کانفرنس میں شرکت پر یو اے ای، سعودی عرب، قطر، کویت، بحرین، عمان کے وفود کا شکریہ ادا کیا۔
ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس نے پاک جی سی سی کانفرنس کی سفارشات سے متعلق آگاہ کیا۔
محسن نقوی نے کامیاب کانفرنس پر اے این ایف اور گلف تعاون کونسل کے مندوبین کو مبارک باد دی۔
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں رواں سال کے آخر تک پاک جی سی سی ممالک کے نارکوٹکس وزراء کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، مندوبین نے انسدادِ منشیات کے سلسلے میں حکومت پاکستان سے مکمل تعاون کا اعادہ کیا۔
محسن نقوی نے کہا کہ رواں سال کے آخر تک منشیات کے سدباب کے لیے جی سی سی وزراء کے ساتھ ایک فورم پر فیصلے لیے جائیں گے، انسدادِ منشیات سے متعلق سفارشات کے نتیجے میں باہمی تعاون مزید مضبوط ہو گا، باہمی تجاویز کی روشنی میں مؤثر حکمتِ عملی بنانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم مل کر معاشرے سے منشیات کے ناسور کا خاتمہ کر سکتے ہیں، جی سی سی کے تمام ممالک ہمارے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں، ہم نے اینٹی نارکوٹکس کے ادارے کو مزید مؤثر اور مضبوط بنایا ہے، ماضی میں بھی مشترکہ آپریشن کیے ہیں اور آئندہ بھی تعاون جاری رکھیں گے۔
وزیرِ مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ منشیات کے سدباب کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مندوبین نے پاکستان کی جانب سے انسدادِ منشیات کے ضمن میں کیے گئے اقدامات کو سراہا۔