کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 مارچ 2025ء) بھارت نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ٹرک کے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور ریاست منی پور کے تعلق سے بعض بیانات پر سخت ردعمل ظاہر کیا اور ان کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "غلط و بے بنیاد" قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے سربراہ نے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران عالمی سطح پر اپنی تازہ رپورٹ میں بھارت کا نام لے کر اس کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور ریاست منی پور میں تشدد سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیا تھا۔
جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن
تاہم جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں بھارت کے مستقل نمائندے ارندم باغچی نے ان کے ایسے تبصروں پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے ریمارکس زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔
(جاری ہے)
اقوام متحدہ نے کیا کہا؟انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے دوران وولکر ٹرک نے بھارت کا ذکر کیا اور اس زمرے میں جموں و کشمیر اور منی پور کی صورتحال کا حوالہ دیا۔
انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے سخت ترین قوانین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا، جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتے ہیں۔ان کا کہنا تھا، "انسانی حقوق کے محافظوں اور آزاد صحافیوں کو ہراساں کرنے لیے پابندی والے سخت قوانین کا استعمال کیا جانا قابل تشویش ہے۔ غیر قانونی نظربندیوں نے کشمیر سمیت شہری آزادیوں کو کم کیا ہے۔
"بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ
انہوں نے منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے "تیز" کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا، "میں منی پور میں تشدد اور نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے بات چیت، قیام امن اور انسانی حقوق کی بنیاد پر تیز رفتار کوششوں کا مطالبہ کرتا ہوں۔"
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی "کوششیں مذاکرات، قیام امن اور انسانی حقوق پر مبنی" ہونی چاہئیں۔
وولکر ٹرک کا کہنا تھا کہ بھارت کی جمہوریت اور ادارے اس کی سب سے بڑی طاقت رہے ہیں، جو اس کے تنوع اور ترقی کی بنیاد ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ "جمہوریت کے لیے معاشرے کے تمام سطحوں پر شرکت اور شمولیت کی مسلسل پرورش کی ضرورت ہوتی ہے۔"
بھارت کا سخت رد عملجنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے 58 ویں اجلاس کے موقع پر بھارتی سفیر ارندم باغچی اقوام متحدہ کے ان بیانات سے برہم دکھائی دیے اور کہا کہ چونکہ اس رپورٹ میں "بھارت کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، اس لیے میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک صحت مند، متحرک اور تکثیری سماج کے طور پر جاری ہے۔
اور رپورٹ میں یہ بے بنیاد تبصرے زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔"بھارت: کشمیری رکن پارلیمان انجینیئر رشید جیل میں بھوک ہڑتال پر
بھارتی سفیر نے اس بات کو خاص طور پر اجاگر کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف کشمیر کا نام لیا۔ باغچی نے کہا اس طرح کے بیانات ایسے وقت میں آئے ہیں، جب خطے میں امن اور ترقی میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
انہوں نے اس کے لیے کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا حوالہ دیا اور کہا کہ "خطے کی سکیورٹی بہتر ہوئی ہے، صوبائی انتخابات میں ووٹروں کی ریکارڈ تعداد رہی جبکہ سیاحت بھی عروج پر ہے اور بنیادی ڈھانچے کی تیز رفتار ترقی کے لیے بھی یہ سال نمایاں رہا ہے۔"
بھارتی سفیر نے نئی دہلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عوام نے "ہمارے بارے میں اس طرح کے غلط خدشات کو بار بار غلط ثابت کیا ہے۔
"بھارتی بیانات علاقائی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں، پاکستان
انہوں نے انسانی حقوق سے متعلق عالمی اپڈیٹ کے وسیع تر نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے "ہائی کمشنر نے ایک وسیع بے چینی محسوس کی ہے، لیکن ہم عرض کریں گے کہ اس سے نمٹنے کے لیے ہائی کمشنر کو اپنے دفتر میں لگے آئینے میں ایک طویل اور سخت نظر ڈآلنے کی ضرورت ہے۔
"اقوام متحدہ کے حکام اور دیگر عالمی ادارے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق ماضی میں سوال اٹھاتے رہے ہیں، تاہم جب بھی ایسا ہوتا ہے، تو بھارتی حکومت انہیں تسلیم کرنے یا اس میں بہتری لانے کی باتیں کرنے کے بجائے حسب معمول انہیں مسترد کر دیتی ہے۔
چند روز قبل جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے خود یہ بات کہی تھی کہ کشمیر میں امن جبری ہے، اور یہ صرف سخت سکیورٹی کی وجہ سے پر امن نظر آ رہا ہے۔"
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے زیر انتظام کشمیر میں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی بھارت کا انہوں نے منی پور کہا کہ
پڑھیں:
عالمی امن کو درپیش خطرات : پاکستان کا مؤثر کردار
اسلام آباد میں پاکستان اور جمہوریہ کوریا کے اشتراک سے اقوام متحدہ امن مشن سے متعلق تیسری دو روزہ وزارتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام سمیت مختلف ممالک کے سرکاری نمائندوں اور فوجی افسران نے شرکت کی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے امن مشنز اور انڈر سیکرٹری جنرل برائے آپریشنل سپورٹ کے علاوہ 157 ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے ارکان نے بھی شرکت کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے عالمی سطح پر امن کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی ان کا کہنا تھا کہ عالمی امن کے فروغ کے لیے اس وزارتی کانفرنس کی تیاری نہایت اہم قدم ہے انہوں نے زور دیا کہ پائیدار عالمی امن کے قیام کے لیے تمام ممالک کو باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر قیام امن کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اب تک مجموعی طور پر دو لاکھ پینتیس ہزار پاکستانی اقوام متحدہ کے امن مشنز میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں جن میں سے ایک سو اکیاسی اہلکاروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا پاکستان ان عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی امن کے استحکام کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ناگزیر ہے اور اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا رہے گا انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز کو آج کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں غلط معلومات کا پھیلاؤ سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے یہ رجحان عالمی امن کو عدم استحکام کی جانب دھکیل سکتا ہے پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر اور اصولوں پر مکمل عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے اور مستقبل میں بھی عالمی امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا