کراچی میں بچوں کیلئے تفریحی مقام ’فنکلوژن‘ کا افتتاح
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
کراچی میں بچوں کے لیے پاکستان کے پہلے منفرد تفریحی مقام ’فنکلوژن‘ کا افتتاح کر دیا گیا۔
کراچی میں نیورو ڈائیورجنٹ اور خصوصی ضروریات کے حامل بچوں کے لیے پاکستان کے پہلے شمولیتی تفریحی مقام فنکلوژن کا افتتاح کر دیا گیا جہاں بچے مختلف سرگرمیوں سے محظوظ ہو سکیں گے۔
افتتاحی تقریب میں وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فنکلوژن ایک ایسا تفریحی مقام ہے جو صلاحیت کے حامل بچوں کے لیے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، یہاں انہیں محفوظ، آرام دہ اور دوستانہ ماحول ملے گا۔
کراچی کے دیگر تاریخی مقامات پر بھی ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا، میئرکراچی میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ.
فنکلوژن کی بانی ڈاکٹر ماہین نورانی نے بتایا کہ فنکلوژن اس لیے بنایا گیا ہے کہ پاکستان میں اس نوعیت کی کوئی تفریح گاہ نہیں تھی۔
تقریب میں شریک مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فنکلوژن ایک کمیونٹی سینٹر ہے جہاں مختلف سرگرمیوں پر مبنی سینسری ایریاز، تربیت یافتہ عملہ اور محدود انٹری سلائیڈز جیسے انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ ہر بچہ خوش گوار تجربات کے مزے اُٹھا سکے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: تفریحی مقام
پڑھیں:
اورنگی میں ڈکیتی مزاحمت پر قتل شہری کی والدہ بچوں کی تعلیم کیلئے فکرمند
کراچی:اورنگی ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر جاں بحق شہری کی غم سے نڈھال بوڑھی والدہ کو مقتول کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے حوالے سے فکر ستانے لگی۔
مقتول کی والدہ کا کہنا تھا کہ بچوں کی روٹی کا بندوبست تو خود کرلوں گی، حکومت سے مطالبہ ہے کہ بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھائے۔ بچے ان پڑھ رہ گئے تو ایک دن یہ بھی ڈاکو بن جائیں گے۔ واقعہ کیسے پیش آیا، واقعے کے وقت مقتول کے ساتھ اس کے کمسن بیٹے نے پورا واقعہ سنا دیا۔
تفصیلات کے مطابق اقبال مارکیٹ تھانے کے علاقے اورنگی ٹاؤن سیکٹر ساڑھے گیارہ، بابا ولایت علی شاہ کالونی گلی نمبر 10 میں ڈکیتی مزاحمت پر جاں بحق شہری ظفر ولد عبدالستار کی غم سے نڈھال بوڑھی والدہ کو مقتول کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے حوالے سے فکر ستانے لگی۔
بوڑھی والدہ نے بتایا کہ وہ ایک بنگلے میں کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں۔ مقتول ظفر کے چھ بچے ہیں جن میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں، ایک بیوی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب مجھے بتایا جائے کہ میں ان بچوں کو لے کر کہاں جاؤں؟ ان بچوں کو کیسے پڑھاؤں گی؟، غریب انسانوں کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہے۔
حکومت سے مطالبہ ہے کہ مقتول کے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھائے۔ بچوں کو پڑھاؤں لکھاؤں گی نہیں تو یہ جاہل رہ جائیں گے اور ایک دن یہ بھی ڈاکو بن جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں۔
واقعے کے وقت مقتول کے ساتھ موجود اس کا کمسن بیٹا بھی موجود تھا۔ بچے نے واقعہ کیسے پیش آیا، پورا سنا دیا۔ مقتول کے کمسن بیٹے نے بتایا کہ ہم برف لے کر واپس آ رہے تھے، ڈاکو ایک شخص سے لوٹ مار کر رہے تھے، بابا اس شخص کو بچانے کے لیے گئے، بابا نے ڈاکو کو پیچھے سے برف ماری اور ایک ڈاکو کو پکڑ کر گرا دیا۔ پیچھے والے ڈاکو نے بابا کو قتل کر دیا۔