مقبوضہ کشمیر، سیاستدانوں کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر کڑی تنقید
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرینگر میں میڈیا سے گفتگو میں لیفٹیننٹ گورنر کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منوج سنہا کی تقریر میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سیاسی لیڈروں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے خطاب میں دفعہ 370 کی بحالی کے بارے میں بات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارتی آئین کی اس دفعہ کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جسے مودی حکومت نے اگست2019ء میں غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق منوج سنہا نے جموں میں نو منتخب اسمبلی کے پہلے بجٹ اجلاس کے آغاز کے موقع پر خطاب کیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرینگر میں میڈیا سے گفتگو میں لیفٹیننٹ گورنر کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منوج سنہا کی تقریر میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو امید تھی کہ وہ ان کے حقوق یا انہیں درپیش مسائل کے بارے میں کوئی بات کریں گے تاہم انہوں نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا، تو کشمیریوں کو اس بارے میں خدشات لاحق ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر منوج سنہا نے اپنے خطاب میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے کشمیریوں کے مطالبات کو تسلیم کیا تاہم وہ اس کی بحالی کیلئے کسی مدت کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے بھی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی نام نہاد حکومت جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ کشمیریوں نے انتخابات میں نیشنل کانفرنس پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم وہ اب بی جے پی کے سامنے سرنگوں ہو چکی ہے اور اس نے دفعہ 370 کی بحالی کے کشمیریوں کے مطالبے پر چپ سادھ رکھی ہے۔ سجاد لون نے کہا کہ اگر پارٹی اقتدار میں ہوتی تو ایل جی کا خطاب بی جے پی کی تقریر ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ منوج سنہا کے خطاب میں دفعہ 370 اور 35A کی بحالی کا کوئی ذکر نہیں تھا جو کشمیریوں کا مقبول ترین مطالبہ ہے۔ انہوں نے نام نہاد وزیراعلیٰ عمرعبداللہ پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں آنے سے قبل ان کی توجہ دفعہ370 کی بحالی پر مرکوز تھی لیکن برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے اس مطالبے کو ترک کر دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے کشمیر اسمبلی سے خطاب پر کرتے ہوئے کہا کہ منوج سنہا کے نے کہا کہ انہوں نے کی بحالی
پڑھیں:
بھارت نے جموں و کشمیر میں خوف و دہشت کے بل پر امن قائم کر رکھا ہے، عمر عبداللہ
ذرائع کے مطابق عمر عبداللہ نے نئی دلی میں ایک مباحثے کے دوران کہا کہ بی جے پی کی بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کو پانچ برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن جموں و کشمیر میں حقیقی معنوں میں امن و اماں کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمر عبداللہ نے نئی دلی میں ایک مباحثے کے دوران کہا کہ بی جے پی کی بھارتی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر آ گئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صورتحال میں جو بہتری نظر آ رہی ہے وہ حقیقی نہیں بلکہ خوف و دہشت کے بل پر قائم کی گئی بہتری ہے۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر خوف و ڈر کا ماحول ختم کیا جائے تو پھر آپ (بھارت) کیلئے دوبارہ مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ آپ خوف و دہشت سے صرف ایک محدود وقت کے لیے صورت حال کو کنٹرول کر سکتے ہیں، اگر دلی حکومت کو اس بات کا مکمل یقین ہوتا کہ حالات کی بہتری کی ایک ٹھوس بنیاد ہے تو وہ سری نگر کی جامع مسجد کو بند نہ کرتی اور میر واعظ کو یہاں اپنے سسر کی نماز جنازہ ادا کرنے سے نہ روکتی۔ انہوں نے کہا کہ جامع مسجد میں نماز جنازہ ادا نہ کرنے دینے کی وجہ یہ ہے کہ دلی کو خوف تھا کہ اس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے گی لہذا جموں و کشمیر میں اس وقت صورتحال میں جو بہتری نظر آ رہی ہے وہ جبر کے بل پر قائم کردہ بہتری ہے۔