اسلام آباد:

پاکستان نے سرحد پار آبی تعاون اور پانی، ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کے تعلق کو 2026ء کے اقوام متحدہ واٹر کانفرنس کے مکالمے میں شامل کرنے کے لیے کلیدی موضوعات کے طور پر تجویز کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے متبادل مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے ای سی او ایس او سی (ECOSOC) چیمبر میں ہونے والے 2026ء اقوام متحدہ واٹر کانفرنس کے تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ کانفرنس ایس ڈی جی 6 کے ہدف ’’سب کے لیے صاف پانی اور نکاسی آب کی فراہمی‘‘ کے حصول کے لیے عالمی کوششوں کو تیز کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔

سفیر عاصم افتخار نے اس بحث کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ براہ راست آئندہ نسلوں کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور عمل درآمد بدستور ایک بنیادی چیلنج بنا ہوا ہے۔

پاکستانی متبادل مندوب نے کہا کہ پاکستان کی تجویز کردہ اضافی موضوعات ترقی پذیر ممالک کے لیے خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ یہ علاقائی یکجہتی، امن، اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان موضوعات پر زیادہ توجہ دینے سے ممالک کو مشترکہ چیلنجز، بہترین طریقہ کار، اور مربوط حل پیش کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمارے ’لیونگ انڈس‘ (Living Indus) اور ’ری چارج پاکستان‘ (Recharge Pakistan) منصوبے ماحولیاتی تحفظ، موافقت، پانی کے معیار میں بہتری، سیلابی خطرات سے نمٹنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سمیت کئی فوائد فراہم کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مارچ 2025ء) اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے فیصلے کے بعد اسرائیل نے اتوار کے روز غزہ کی پٹی میں امدادی ساز و سامان کا داخلہ روک دیا تھا، جس پر اقوام متحدہ، مصر اور سعودی عرب سمیت کئی تنظیموں نے سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔

نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا نے کہ چونکہ حماس نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی مذاکرات کی بحالی کے خاکے کو قبول کرنے سے''انکار کر دیا ہے‘‘ اس لیے امداد کی رسائی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جس میں انسانی امداد میں اضافہ بھی شامل تھا، ہفتے کو ختم ہو گیا۔

فریقین جنگ بندی سے متعلق اگلے اقدامات کے بارے میں متفق نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

اسرائیل چاہتا ہے کہ پہلے مرحلے کی توسیع کے تحت مزید یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔ لیکن حماس دوسرے مرحلے کی جنگ بندی کے آغاز پر زور دے رہی ہے، جس سے جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے غزہ کی امداد روکنے کو جنگی جرم قرار دیا ہے۔

دوسری جانب نیتن یاہو کے دفتر نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے جنگ بندی میں توسیع کی امریکی تجویز سے انکار جاری رکھا تو اسے "مزید نتائج" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

غزہ کی ناکہ بندی پر عرب ممالک کا رد عمل؟

مصر نے اس جنگ بندی میں مدد کی تھی تاہم اب اس نے اسرائیل پر جنگ بندی کے معاہدے کی "صریح خلاف ورزی" کا الزام لگایا ہے۔

مصری وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے حوالے سے ایک بیان میں اسرائیلی فیصلے کو "بلیک میل" اور "اجتماعی سزا" قرار دیا اور عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ "اسرائیل کی ان سنگین خلاف ورزیوں کو روکے۔

"

اردن نے بھی امداد روکنے کے اسرائیلی فیصلے کی مذمت کی ہے۔

اتوار کو ایک بیان میں قطر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ اسرائیلی فیصلے کی "سخت مذمت" کرتا ہے اور اسے "جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی" کے ساتھ ہی "بین الاقوامی قوانین" کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ قطر اور مصر دونوں نے ہی غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے میں ثالثی میں مدد کی تھی۔

امدادی اداروں کی جانب سے تنقید

اقوام متحدہ کے انڈر سکریٹری جنرل برائے انسانی امور ٹام فلیچر نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، "بین الاقوامی انسانی قانون واضح ہے: ہمیں زندگی بچانے والی اہم امداد کی فراہمی کے لیے رسائی کی اجازت ہونی چاہیے۔"

ٹام فلیچر نے اسرائیل کے فیصلے کو "خطرناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ رسائی بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہونی چاہیے۔

یونیسیف کی ترجمان روزالیا بولن نے کہا کہ امداد روکنا غزہ کے رہائشیوں کے لیے "تباہ کن" ہو گا۔

بولن نے کہا کہ اگرچہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے ضروری سامان میں اضافے سے "فوری طور پر راحت ملی ہے اور اس سے بہت سی جانیں بچ گئی ہیں، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔"

اسرائیل جنگ بندی میں توسیع پر راضی جبکہ حماس کا دوسرے مرحلے پر زور

اس سے قبل اتوار کے روز نیتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ اس نے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اس میں توسیع پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

اس میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان اور یہودیوں کے پاس اوور کے لیے توسیع ہونی تھی۔

رمضان 30 ​​مارچ تک جاری رہے گا، جبکہ فسح کا یہودی تہوار 12 اپریل کی شام کو شروع ہوگا اور 20 اپریل کی شام کو ختم ہو گا۔

نیتن یاہو کے دفتر کے بیان کے مطابق وِٹکوف نے مستقل جنگ بندی پر بات چیت کے لیے مزید وقت کی ضرورت محسوس کرنے کے بعد موجودہ جنگ بندی میں توسیع کی تجویز پیش کی۔

حماس نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے نفاذ پر زور دے رہی ہے۔

حماس کے رہنما محمود مرداوی نے اے ایف پی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا، "خطے میں استحکام حاصل کرنے اور قیدیوں کی واپسی کا واحد راستہ معاہدے پر عمل درآمد کو مکمل کرنا ہے۔ اس کا آغاز دوسرے مرحلے کے نفاذ کے ساتھ کیا جائے۔

"

اصل معاہدے کے تحت، دوسرے مرحلے کا مقصد بقیہ یرغمالیوں کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء اور جنگ کے حتمی خاتمے پر بات چیت کا آغاز کرنا ہے۔

جنوری میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت دوسرے مرحلے پر مذاکرات کے دوران لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم اسرائیل کے نئے بیان میں کہا گیا، ''اگر اسے یقین ہوا کہ مذاکرات بے اثر ثابت ہو رہے ہیں تو جنگ کا آغاز دوبارہ ہوسکتا ہے۔‘‘

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

متعلقہ مضامین

  • کشمیر پر اقوام متحدہ کے بیان سے بھارت اتنا برہم کیوں ہے؟
  • اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھارت کو جواب دہ ٹھہرانے
  • کراچی، گارڈن میں پانی کی عدم فراہمی پر علاقہ مکین سراپا احتجاج بن گئے
  • اقوام متحدہ اور عرب ممالک کی امداد روکنے پر اسرائیل کی مزمت
  • اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے، چوہدری لطیف اکبر
  • ایس ای سی پی نے مضاربہ آرڈیننس میں ترامیم کی منظوری دے دی
  • پاکستان، اٹلی کا اقوام متحدہ میں قریبی روابط پر اتفاق
  • سعودی عرب اور اقوام متحدہ کے درمیان یوکرین میں انسانی امداد کے لیے معاہدہ
  • فلسطینی مسئلے پر اگلے ہفتے عرب کانفرنس میں شرکت کرونگا، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ