صدر زرداری کا حکومتی کارکردگی کی رپورٹ طلب کرنا غیر معمولی خبر
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) موجودہ حکومت کے دوسرے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دس مارچ کو بلایا جارہا ہے جس سے صدر مملکت دوسری مرتبہ خطاب کرینگے جس کی تیاریاں اور انعقاد سب معمول کا حصہ ہیں لیکن خبر میں سے شر کا پہلو نکالنے کی جستجو رکھنے والوں نے اس خبر میں سے خبریت کے کئی پہلو نکال لئے ہیں جس میں اس پہلو کہ’’ صدر نے حکومت سے ایک سال کی کارکردگی کی رپورٹ طلب کرلی ہے بھی شامل ہے‘‘ ، صدر کی جانب سے رپورٹ کی طلبی کی خبر کو اضافی بلکہ غیر معمولی سمجھا جارہا ہے چونکہ موجودہ حکومت ایک اتحادی تشکیل ہے اور مسلم لیگ(ن) کی اتحادی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے غیر اعلانیہ سربراہ صدر مملکت کے منصب پرفائز ہیں۔ دونوں جماعتیں تین دہائیوں سے ایک دوسرے کیخلاف بدترین سیاسی محاذآرائی میں مقابل رہی ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری بن چکی ہیں۔ پھر آصف زرداری ایک ایسی صورتحال میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنیوالے ہیں جبکہ ان کی جماعت کو بالخصوص پنجاب میں مرکزی حکومت سے بہت سے تحفظات، گلے شکوے اور یقین دہانیوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی شکایتیں ہیں اسی پس منظر میں بعض سیاسی حلقوں اور خود حکومتی رہنمائوں کو یہ خدشہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر زرداری کا اپنی تقریر میں وفاقی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے لفظی طرز عمل ہمدردانہ نہ ہو بلکہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی سے وابستگی رکھنے والے پنجاب کے گورنر پنجاب کی حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں حال ہی میں صدر زرداری نے پنجاب کا دورہ بھی کیا تھا جہاں انہوں نے گورنر ہائوس میں ہونیوالے ایک اجلاس میں پارٹی کے لوگوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں جنہوں نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کیخلاف شکایتوں کے انبار لگا دیئے تھے اور پنجاب میں درپیش مسائل جن میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں نظر انداز کئے جانے سمیت متعدد شکایت شامل تھیں، پھر چند روز قبل پیپلزپارٹی سندھ کے مرکزی رہنما سید نوید قمر جو پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں ان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ بجٹ آرہا ہے حکومت کو ووٹ نہ دینے کا آپشن بھی موجود ہے ووٹ سوچ سمجھ کر دیں گے ووٹ نہ دیا تو حکومت گر جائے گی ،پیپلزپارٹی کو ایک گلہ یہ بھی ہے کہ صدر مملکت جب پنجاب جاتے ہیں تو انہیں ان کے’’ شایان شان‘‘ پروٹوکول نہیں ملتا ایسےہی دیگر عوامل ہیں جن کے تناظر میں خبر میں سے خبر نکالنے والے بعض قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بلاول بھٹو اور پارٹی کے بعض رہنمائوں کو ملاقات کی دعوت کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے جن سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے لیکن دانندگان سیاست کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومتوں میں اپنے مطالبات منوانے کیلئے کسی بھی مشکل اور اہم موقع پر اتحادی جماعتوں کی جانب سے ایسا طرز عمل کوئی نئی بات نہیں جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر وزیراعظم کیساتھ پیپلزپارٹی کے وفد کی ملاقات کامیاب رہتی ہے تو تقریر میں بھی سب اچھا ہوگا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی سربراہی میں ملنے والے وفد جس نے اتوار کو وزیراعظم ہائوس میں ان سے ملاقات کرنی تھی وہ موخر کردی گئی جو آج(منگل) کو متوقع ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی جانب سے صدر مملکت جارہا ہے
پڑھیں:
’حکومتی رائٹ سائزنگ کا زیادہ تر ہدف چھوٹے عہدے‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مارچ 2025ء) تفصیلات کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی کے 200 عہدے ختم کرنے کے اقدام سے سالانہ ایک ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔ یہ عہدے حکومت کی رائٹ سائزنگ کی پالیسی کے تحت ختم کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے ایک رائٹ سائزنگ کمیٹی بنا رکھی ہے جس میں قانون دان اور مختلف محکموں کے سیکرٹری شامل ہیں۔
پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟
نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہیں، پاکستان
عہدے ختم کرنے کا یہ اقدام ایک ایسے وقت اٹھایا گیا جب چند ہفتے قبل ہی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر لیا تھا اور ملک میں اس فیصلے پر عوامی سطح پر اور میڈیا پر کافی بحث و تمحیض ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
ڈاکٹر اشفاق حسن ایک سینئر پالیسی ساز اور معیشت دان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کھلا تضاد ہے کہ ایک طرف قانون ساز اپنی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف عوامی پیسے کی بچت کے لیے رائٹ سائزنگ کی بات کر رہے ہیں: ''یہ انصاف نہیں کہ اقتدار میں موجود افراد اپنی تنخواہیں بے حد بڑھا لیں۔ ایسے اقدامات کے بعد دیگر ادارے بھی اسی طرز پر عمل کرنے کی ترغیب پاتے ہیں، جیسا کہ نیپرا کی مثال سامنے آئی جہاں اتھارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے اراکین پارلیمنٹ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کر لیا۔
‘‘ رائٹ سائزنگ میں کون سے عہدے ختم ہوں گے؟باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی اشرافیہ کے لیے پالیسیوں کا نہ صرف مالی بچت کے اصولوں سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا بلکہ جب رائٹ سائزنگ کی بات آتی ہے تو صرف چھوٹے عہدے ختم کیے جا رہے ہیں۔ معروف ماہر معیشت اور حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کے سابق رکن قیصر بنگالی کا کہنا ہے، ''میں نے نومبر میں وفاقی رائٹ سائزنگ کمیٹی سے صرف اس وجہ سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ یہ زیادہ تر چھوٹے ملازمین کی نوکریاں ختم کرنے پر مرکوز تھی جو کہ میرے خیال میں ایک ٹھیک چیز نہیں ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ مختلف عہدوں پر کام کرنے کے دوران انہیں حکومت کے معاملات کی بدحالی کا بخوبی اندازہ ہوا: ''ایسے کیسز بھی موجود ہیں جہاں حکومت کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ کچھ چھوٹے محکمے وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ کبھی کسی ضرورت کے تحت یہ محکمے قائم کیے گئے تھے، مگر بعد میں کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا کیا کرنا ہے، اور لوگ بس تنخواہیں لے رہے ہیں۔
‘‘قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں حکومت رائٹ سائزنگ کی بات کرتی ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی اقدام سے پہلے مکمل تحقیق کی جائے اور ہر اہم کام ماہرین کے ذریعے انجام دیا جائے۔ اس وقت فیصلہ کرنے والے اسمبلی کے رکن اور محکموں کے سیکرٹریز ہیں اور کوئی ٹھرڈ پارٹی ماہر اس رائٹ سائزنگ کی کمیٹی کا حصہ نہیں ہے۔
اگر چھوٹے عہدے ختم نہ کریں تو کون سے کریں؟جہاں کچھ لوگ چھوٹے عہدوں کے خاتمے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہیں کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت رائٹ سائزنگ کے تحت چھوٹے عہدوں کو ختم نہیں کرے گی تو یہ پالیسی مؤثر ثابت نہیں ہوگی، کیونکہ سرکاری عملے کی بڑی تعداد انہی عہدوں پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے، ''کُل سرکاری ملازمین میں سے تقریباً 88 فیصد وہ لوگ ہیں جو گریڈ ایک سے پانچ تک بھرتی کیے گئے ہیں۔
جب بھی رائٹ سائزنگ کی بات ہوگی، سب سے زیادہ متاثر یہی لوگ ہوں گے۔ حکومت نے معمولی کاموں کے لیے بے تحاشہ افراد بھرتی کر رکھے ہیں، جیسے چائے بنانا، شیشے صاف کرنا، پودوں کو پانی دینا، گاڑیاں دھونا، اور دفتری فائلیں ایک دفتر سے دوسرے دفتر پہنچانا۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سیاستدانوں نے ملک کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنا دیا ہے جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی: ''سیاستدان اپنے حلقوں کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ملازمتیں دیتے ہیں، کیونکہ وہ انہیں غریب سمجھتے ہیں، مگر یہ غریبوں کی مدد کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے بایثر لوگ بھی وسائل کی اپنے مفاد میں غیر منصفانہ تقسیم نہ کریں۔‘‘