ایشین کپ کوالیفائرز، پاکستانی فٹبال ٹیم ایکشن میں نظر آئے گی
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
لاہور:
عالمی فٹبال کی گورننگ باڈی فیفا کی طرف سے معطلی ختم ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کو خوشخبری مل گئی، ٹیم رواں ماہ سعودی عرب میں شیڈول اے ایف سی ایشین کپ 2027 کوالیفائرز کے دوران ایکشن میں نظر آئے گی۔
پاکستان فٹبال فیڈریشن کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ ٹیم اے ایف سی ایشین کپ 2027 کوالیفائرز میں حصہ لینے کیلیے سعودی عرب کا سفر کرے گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن پر معطلی رواں سال 5 فروری کو اس وقت لگائی تھی جب پی ایف ایف کانگریس ممبران مقررہ معیار کے مطابق آئین میں ترامیم کرنے میں ناکام رہے تھے۔
3 روز قبل لاہور میں منعقدہ پی ایف ایف کانگریس میں ممبران کے درمیان اتفاق رائے کے بعد ضروری آئینی ترامیم منظور کر لی گئیں۔
ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ فیفا نے انھیں باضابطہ طور پر معطلی ختم کرنے سے آگاہ کیا ہے، جس کے بعد پاکستان فٹبال کی عالمی سطح پر بحالی کا عمل شروع ہو گیا۔
قومی ٹیم کی صلاحیتوں کا پہلا امتحان اے ایف سی ایشین کپ 2027 کوالیفائرز سے ہوگا، ایشیائی ایونٹ کے کوالیفائر ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر کھیلے جائیں گے، گروپ ای میں پاکستان سمیت شام، افغانستان اور میانمار کی ٹیمیں شامل ہیں۔
پاکستان اے ایف سی ایشین کپ 2027 کوالیفائنگ مہم کا آغاز 25 مارچ کو شام کے خلاف میچ سے کرے گا، یہ میچ الاحساء سعودی عرب میں کھیلا جائے گا ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ڈھاکہ میں پاکستانی، بنگلہ دیشی خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2025ء) اسلام آباد میں دفتر خارجہ اور بنگلہ دیش کے میڈیا کی جانب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کی خارجہ سیکرٹری آمنہ بلوچ جمعرات کے روز بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ پہنچی تھیں، جہاں انہوں نے اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب جشیم الدین کے ساتھ کئی اہم امور پر بات چیت کی۔
جمعرات کے روز ہی بنگلہ دیش کے ’فارن آفس کنسلٹیشن‘ (ایف او سی) سے بات چیت کے بعد آمنہ بلوچ نے ڈھاکہ انتظامیہ کے اہم مشیر پروفیسر محمد یونس اور خارجہ امور کے مشیر توحید حسین سے بھی ملاقات کی۔
ڈھاکہ اور اسلام آباد کے مابین خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کی آخری بات چیت سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے پہلے دور میں سن 2010 میں ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے باہمی سفارتی روابط میں کمی آتی گئی تھی۔ اس پس منظر میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی سطح پر سیاسی مذاکرات کا دوبارہ آغاز 15 برس بعد ہوا ہے۔
پاکستان نے اس حوالے سے کیا کہا؟اس ملاقات کے حوالے سے اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا، ’’خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کی مشاورت کا چھٹا دور 15 برس کے وقفے کے بعد آج ڈھاکہ میں شروع ہوا اور فریقین کے درمیان خوشگوار ماحول میں مستقبل کی تعمیری پیش رفت پر بات چیت کی گئی۔
‘‘اس بیان میں مزید کہا گیا، ’’پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت ہوئی، جن میں سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات، زراعت، ماحولیات اور تعلیمی شعبے میں تعاون، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعلقات نیز عوام کے درمیان رابطوں جیسے امور شامل ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کہا کہ اس ملاقات کے دوران فریقین نے دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں تلاش کیں۔
بنگلہ دیش نے اس ملاقات کے بارے میں کیا کہا؟بنگلہ دیش کے معروف میڈیا ادارے ڈھاکہ ٹریبیون نے اطلاع دی ہے کہ بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کی ڈائریکٹر جنرل عشرت جہاں نے مذاکرات کے لیے آمنہ بلوچ کا خیر مقدم کیا۔
بنگلہ دیش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (بی ایس ایس) نے اطلاع دی ہے کہ ڈھاکہ انتظامیہ کے مشیر پروفیسر محمد یونس نے باہمی تعاون کو فروغ دینے اور تجارت اور کاروباری امکانات کو تلاش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔
انہوں نے آمنہ بلوچ سے کہا، ’’کچھ رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں ان پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔‘‘محمد یونس نے کہا، ’’ایک طویل عرصے سے ہم ایک دوسرے کو مس کرتے رہے، کیونکہ ہمارے تعلقات منجمد ہو گئے تھے۔ ہمیں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔‘‘
انہوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں اور ثقافتی پروگراموں کا تبادلہ ضروری ہے۔
ماضی کے مسائل کو تسلیم کرتے ہوئے، آمنہ بلوچ نے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو آپس میں تمام ’’ممکنہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے‘‘ کے طریقے تلاش کرنا چاہییں۔
سن 1971 کے لیے پاکستان سے معافی کا مطالبہپاکستانی خارجہ سیکرٹری آمنہ بلوچ نے ڈھاکہ میں امور خارجہ کے مشیر توحید حسین سے بھی ملاقات کی اور سارک کی بحالی سمیت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات سمیت علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اطلاعات ہیں کہ اس موقع پر بنگلہ دیش نے ’’تاریخی طور پر حل نہ ہونے والے بعض مسائل‘‘ کو اٹھایا اور سن 1971 کے واقعات کے حوالے سے پاکستان سے عوامی سطح پر معافی کا مطالبہ کیا۔
سن 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش کے طور پر پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے ڈھاکہ پاکستان سے رسمی معافی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ فریقین میں اثاثوں کی واپسی اور بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی وطن واپسی جیسے معاملات کے حوالے سے بھی تنازعہ موجود ہے۔
ڈھاکہ میں مذاکرات کے بعد جشیم الدین نے وزارت خارجہ کے دفتر میں میڈیا کو بات چیت کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے پاکستان کے ساتھ تاریخی غیر حل شدہ مسائل کو بھی اٹھایا، جس میں پاکستانی افواج کی طرف سے سن 1971 کی جنگ آزادی کے دوران ہونے والے مظالم اور زیر التواء مالی دعووں کے لیے باضابطہ عوامی معافی بھی شامل ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے کہا کہ یہ تاریخی غیر حل شدہ مسائل کو حل کرنے کا صحیح وقت ہے ۔
۔ ۔ ان مسائل کو باہمی مفادات اور ہمارے تعلقات کی مضبوط بنیاد‘‘ رکھنے کے لیے حل کرنے کی ضرورت ہے۔جب ان سے اس پر پاکستان کے رد عمل کے بارے میں پوچھا گیا، تو جشیم الدین نے کہا کہ پاکستان نے ’’یقین دلایا ہے کہ وہ ان اٹھائے گئے معاملات پر‘‘ بات کرتا رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ہم منصب سے بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
انہوں نے کہا، ’’جن لوگوں نے بنگلہ دیش میں رہنے کا انتخاب کیا، انہیں شہریت دے دی گئی ہے۔ کچھ نے پاکستان واپس جانے کا انتخاب کیا۔ اب تک ایسے پھنسے ہوئے 26,941 پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق اب بھی ایسے تقریباً تین لاکھ 24 ہزار 147 افراد 14 اضلاع کے 79 کیمپوں میں مقیم ہیں۔‘‘
شیخ حسینہ کے دور میں کشیدگیبھارت نواز شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ رہے تھے۔
تاہم گزشتہ سال اگست میں ان کی اقتدار سے برطرفی کے بعد سے دو طرفہ تعلقات میں ڈرامائی حد تک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر آخری ملاقات 2010 میں شیخ حسینہ کے پہلے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ اور اب آمنہ بلوچ کے دورے کے بعد 22 اپریل کو پاکستانی نائب وزیر اعظم اور ملکی وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی ڈھاکہ کے دورے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔
سیاسی اور معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں ’سرد جنگ‘ کی وجہ سے گزشتہ 15 سالوں میں تجارت، مواصلات اور دیگر شعبوں میں پیش رفت نہ ہو سکی اور اسی لیے اب دونوں ملک باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ بنیادیں تلاش کر رہے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک